Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 134
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ١ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ١ۚ وَ لَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
تِلْکَ أُمَّةٌ : یہ امت قَدْ : تحقیق خَلَتْ : جو گزر گئی لَهَا : اس کے لئے مَا کَسَبَتْ : جو اس نے کمایا وَ : اور لَكُمْ : تمہارے لئے مَا کَسَبْتُمْ : جو تم نے کمایا وَ : اور لَا : نہ تُسْئَلُوْنَ : تم سے پوچھا جائے گا عَمَّاکَانُوْا : اس کے بارے میں جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
یہ ایک امت تھی جو گزر چکی ، اس کیلئے وہ تھا جو اس نے کمایا ، تمہارے لیے وہ ہوگا جو تم کماؤ گے تم سے اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی کہ ان کے اعمال کیسے تھے
دنیا سے رخصت ہونے والے انبیاء (علیہ السلام) سب ایک ہی جماعت تھے : 247: یہاں بات انہی انبیاء کرام کی ہے جو اجد اد یہود ہیں جن کا شمار انبیاء میں ہے۔ یہود سے کہا جا رہا ہے کہ آبائی مفاخرت ، نسلی عظمت پیمبرزادگی کے نشہ میں کیوں چور ہو اور ایسا کہنے میں ایک بڑا سبق آج کل کے پیرزادوں ، رسمی مشائخ زادوں اور بہت سے بدعتی فرقوں کے لیے موجود ہے کہ بلاسعی عمل محض بزرگوں کی نسبت سے فائدہ اٹھانے کی جڑ ہی اسلام نے گویا کاٹ دی ہے۔ اسلام کی ہدایت کی وجہ سے آج یہ بات معمولی سی معلوم ہوتی ہے لیکن قرآن کریم نے جب اس حقیقت کا اعلان کیا تو اس وقت بہت ہی اہم اور ایک نادر سی بات تھی۔ شخصی و ذاتی ذمہ داری اور انفرادی مسئولیت کی تعلیم اسلام کی خصوصیات امتیازی میں سے ہے ورنہ مشرک تو مشرک یہود اہل توحید تک اس سفاہت میں مبتلا ہوگئے تھے کہ ذاتی عمل کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ مقبولانِ الٰہی کی جانب انتساب نسلی اور بزرگوں کی طرف نسبت نسبی بالکل کافی ہے۔ مسیحیوں کا گھڑا ہوا مسئلہ ” معصوصیت متوارث “ سب کو معلوم ہے یعنی جو معصیت ابوابشر سے ہوگئی تھی وہ ہر نسل آدم میں متوارث منتقل ہوتی چلی آرہی ہے ۔ یہود نے اس کے مقابل ایک عقیدہ ” نجات متوارث “ کا وضع کرلیا تھا اور یہ سمجھ لیا تھا کہ : ” خدا تعالیٰ اپنے اسم پاک کے طفیل میں اور بہ طور اپنے افضال کے باپ کے حسنات اولاد کی طرف منتقل کرتا رہتا ہے۔ “ (جیوش انسائیکلوپیڈیا ج 13 ص 447) تو ریت مروجہ میں بھی ایک آیت اس مضمون کی ملتی ہے : ” میں خدا وند تیرا خدا غیور خدا ہوں جو باپ دادوں کی بدکاری کا بدلہ ان کی اولاد سے تیسری اور چوتھی پشت تک جو میرا کنبہ رکھنے والے ہیں لیتا ہوں۔ “ (استثناء 5 : 9) بس اس تنکے کی اوٹ پہاڑ یہ کھڑا کرلیا گیا کہ ہر نسل کا انتقال ثواب اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی اسلاف واخلاف دونوں کی طرف سے ہوتا رہے گا اور پھر اولاد ابراہیم کو تو کوئی ڈر ہی نہیں۔ “ بعض کو ثواب اپنے اسلاف کے اعمال کا ملے گا اور بعض کو ثواب اپنے اخلاف کے اعمال کا “ (جیوش انسائیکلوپیڈیا ج 6 ص 60) ” افراد یہود کی امیدیں سب اسلاف کے تقویٰ پر قائم ہوگئی تھیں یعنی اس پر کہ ہم ابراہیم کی اولاد ہیں۔ “ (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ج 13 ص 194 طبع یازدم) تم اپنے اعمال کے جوابدہ نہ ہو کہ دوسروں کے : 248: قرآن کریم یہود کو مخاطب کر کے گویا کہہ رہا ہے کہ اچھا تھوڑی دیر کے لئے مان لو کہ انہوں نے ایسا کہا تھا تو تمہیں کیا ؟ ہر شخص اپنے اعمال کا آپ ذمہ دار ہے ۔ اپنے لئے تم خود راہ نجات تلاش کرو اور دیکھو یہ تعلیم صحیح ہے یا نہیں۔
Top