Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 141
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ١ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ١ۚ وَ لَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
تِلْکَ أُمَّةٌ : یہ امت قَدْ : تحقیق خَلَتْ : جو گزر گئی لَهَا : اس کے لئے مَا کَسَبَتْ : جو اس نے کمایا وَ : اور لَکُم : تمہارے لئے مَا کَسَبْتُمْ : جو تم نے کمایا وَ : اور لَا : نہ تُسْئَلُوْنَ : پوچھا جائے گا عَمَّاکَانُوْا : اس کے بارے میں جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
ہاں ! یہ ایک امت تھی جو گزر چکی اس کے لیے وہ تھا جو اس نے اپنے اعمال سے کمایا ، تمہارے لیے وہ ہوگا جو تم اپنے عمل سے کماؤ گے ، تم سے کچھ اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی کہ ان کے اعمال کیسے تھے ؟
ہاں اکابرین یہود ایک امت تھے : 258: ” تِلْكَ اُمَّةٌ“ سے مراد قوم اسرائیل کے اکابر اسلاف خصوصاً اجداد ثلاثہ ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) جنکی اولاد ہونے پر بنی اسرائیل کو سب سے زیادہ فخر ہے ان سب کا گویا نام لے کر بنی اسرائیل کو کہا جارہا ہے کہ یادر کھو انکے اعمال صالح سے تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا اور نہ تمہارے کفر اور اعمال سیئہ سے انہیں کوئی ضرر ہوگا اور آج جو تم نے اپنی کتابوں میں لکھ لیا ہے وہ ان بزرگوں پر اترے ہوئے کلام میں ہرگز نہیں پایا جاتا یہ تمہاری تحریف ہے۔ جس میں تم کو بڑی مہارت ہے۔ ” جس طرح انگور کی زندہ و شاداب بیل ایک بےجان ستون کے سہارے بڑھتی اور پھیلتی رہتی ہے اسی طرح زندہ یہودی اپنے مرحوم مورثوں اور بزرگوں کے بل بوتے پر پروان چڑھتا رہتا ہے اور تینوں اجداد اسرائیل نیز دوسرے صالحین و اخیار نے اعمال صالحہ کا جو انبار عظیم لگا دیا ہے اس سے انکی اولاد کو مجموعا منفرداً حصہ ملتا رہتا ہے اور اس طرح کسی فرد میں خواہ کتنی ہی کمزوریاں ہوں اس کی نجات یقینی ہے ۔ “ قرآن کریم اس ” متوارث نجات “ پر برابر ضرب شدید لگاتا جاتا ہے۔ لیکن تم نے جو عقیدے گڑھے ہیں گھڑتے رہو امت مسلمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اللہ کے لئے مخلص ہے اور اسی ” اخلاص “ کے معنی میں حضرت سعید بن جبیر نے بتلایا تھا کہ اخلاص یہ ہے کہ انسان اپنے دین میں مخلص ہو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور اپنے عمل خالص اللہ کے لئے کرے ، لوگوں کے دکھانے یا ان کی مدح و شکر کی طرف نظر نہ کرے۔
Top