Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 171
وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً١ؕ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَثَلُ : اور مثال الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا كَمَثَلِ : مانند حالت الَّذِيْ : وہ جو يَنْعِقُ :پکارتا ہے بِمَا : اس کو جو لَا يَسْمَعُ : نہیں سنتا اِلَّا : سوائے دُعَآءً : پکارنا وَّنِدَآءً : اور چلانا صُمٌّۢ : بہرے بُكْمٌ : گونگے عُمْيٌ : اندھے فَهُمْ : پس وہ لَا يَعْقِلُوْنَ : پس وہ نہیں سمجھتے
اور جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چرواہا چارپایوں کے پیچھے چیختا چِلّاتا ہے اور چارپائے کبھی بھی نہیں سنتے مگر صرف بلانے اور پکارنے کی صدائیں ، وہ بہرے ، گونگے ، اندھے ہو کر رہ گئے پس کبھی سوچنے سمجھنے والے نہیں
کفر کی راہ اختیار کرنے والوں کی مثال قرآن کریم میں : 299: ذکر داعی حق کی دعوت حق کا ہو رہا ہے۔ ایک تشبیہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی امت دعوت کے رویہ سے متعلق پیش کی جا رہی ہے کہ رسول ہے کہ ان کو پکارتا ہے اور وہ بھی اس کی پکار کو سن رہے ہیں لیکن اس جانور کی طرح جس کے کان میں پکارنے والے کی آواز اور الفاظ تو آرہے ہیں باقی وہ معنی و مفہوم کچھ نہیں سمجھتے۔ بس یہی معاملہ یہ منکرین بھی دعوت حق کے ساتھ کر رہے ہیں کہ داعی کے الفاظ تو سن لیتے ہیں لیکن اس کے معنی اور مفہوم پر غور ہی نہیں کرتے گویا وہ بہرے ہیں لیکن آواز حق کی طرف سے گونگے ہیں کہ اقرار حق کے لئے ان کی زبان بالکل نہیں کھلتی اندھے ہیں کہ اپنے نفع و نقصان کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اس سے ملتا جلتا ایک فقرہ تورات میں بھی موجود ہے : ” وہ نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے کہ ان کی آنکھیں لیپی گئیں سو وہ دیکھتے نہیں اور ان کے دل بھی سو وہ نہیں سمجھتے۔ “ (یسعیاہ 44 : 18) قرآن کریم نے ان کا بیان بڑی تفصیل سے کیا ہے جو تعریف آیات کی صورت میں قرآن کریم میں جگہ جگہ موجود ہے چناچہ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے : ” کیا یہ لوگ ملکوں میں چلے پھرے نہیں کہ عبرت حاصل کرتے ؟ ان کے پاس دِل ہوتے اور سمجھتے بوجھتے ، کان ہوتے اور سنتے اور پاتے ، حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی اندھے پن میں پڑتا ہے تو آنکھیں اندھی نہیں ہوجایا کرتیں دِل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر پوشیدہ ہیں۔ “ (الحج 22 : 46) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور کتنے ہی جن اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے ، ان کے پاس عقل ہے مگر اس سے سمجھ بوجھ کا کام نہیں لیتے ، آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے ، کان ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے وہ چارپایوں کی طرح ہوگئے بلکہ ان سے بھی زیادہ کھوئے ہوئے ایسے ہی لوگ ہیں جو یک قلم غفلت میں ڈوب گئے ہیں۔ “ (الاعراف 7 : 179) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارے جو قیامت تک اس کی پکار کو نہ پہنچ سکیں بلکہ ان کو ان کے پکارنے کی خبر تک نہ ہو (سکتی ہو) ۔ اور جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو یہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت ہی سے منکر ہوجائیں گے۔ “ (الاحقاف 46 : 5 تا 6) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور بادلوں کی گرج اس کی ستائش کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کی دہشت سے سرگرم ستائش رہتے ہیں وہ بجلیاں گراتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان کی زد میں لے آتا ہے لیکن یہ منکر ہیں کہ اس کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں حالانکہ وہ (اپنی قدرت میں) بڑا ہی سخت اور اٹل ہے۔ اسی کا پکارنا ہی سچا پکارنا ہے جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ پکارنے والے کی کچھ نہیں سنتے ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے کہ بس پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس کے منہ تک پہنچنے والا نہیں اور منکرین حق کی پکار اس کے سوا کچھ نہیں کہ ٹیڑھے راستوں میں بھٹکتے پھرنا ہے۔ “ (الرعد 13 : 13 تا 14) ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا : ” یہ لوگ اللہ کے ساتھ کن ہستیوں کو شریک ٹھہراتے ہیں ؟ ایسی کو جو کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے اور خود کسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ ان میں نہ تو اس کی طاقت ہے کہ ان کی مدد کریں ، نہ اس کی کہ خود اپنی ذات ہی کو مدد پہنچائیں۔ (اور اے پیغمبر اسلام ! ان کی منافقت کا یہ حال ہے کہ) اگر تم سیدھی راہ کی طرف بلاؤ تو تمہارے پیچھے قدم نہ اٹھا سکیں اور تم انہیں پکارو یا چپ رہو دونوں حالتوں کا نتیجہ تمہارے لیے یکساں ہو۔ تم اللہ کے سوا جن جن ہستیوں کو پکارتے ہو وہ تمہاری ہی طرح اللہ کے بندے ہیں اگر تم سچے ہو (ماورائے بشریت ان میں طاقتیں ہیں) تو اپنی احتیاجوں میں پکارو وہ تمہاری پکار کا جواب دیں۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلتے ہیں ؟ ہاتھ ہیں جن سے پکڑتے ہیں ؟ آنکھیں ہیں جن سے دیکھتے ہیں ؟ کان ہیں جن سے سنتے ہیں ؟ (نہیں اور یقینا نہیں بلکہ یہ تو محض بت ، شبیہّیں اور قبریں ہیں پھر) ان لوگوں سے کہو انہیں پکار لو پھر مخفی تدبیریں کر ڈالو اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو ۔ میرا کارساز تو بس اللہ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہی ہے جو نیک انسانوں کی کارسازی کرتا ہے۔ “ (الاعراف 7 : 191 تا 196) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” (دیکھو کس طرح) اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو (اپنے اپنے) کام پر لگا رکھا ہے ہر ایک وقت معین تک چلتا رہے گا یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اس کی بادشاہی ہے اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے کے برابر بھی اختیار نہیں رکھتے۔ اگر تم انکو پکارو بھی تو وہ تمہاری پکار نہ سن سکیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری فریاد کو نہ پہنچ سکیں اور قیامت کے دن تمہارے شریک ٹھہرانے سے انکار کریں گے اور (اس) باخبر کی طرح تم کو (حقائق کی) خبر کوئی نہ دے گا۔ “ (فاطر 35 : 13 تا 14) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” وہ (فرشتے) عرض کریں گے تیری ذات (ہر شرک سے) پاک ہے تو ہی ہمارا آقا ہے نہ کہ یہ لوگ ، بلکہ وہ لوگ تو (ہمارا نام لے کر) جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور ان میں اکثر انہیں پر ایمان رکھتے تھے (کہ یہ ایسا ایسا کردیتے ہیں) ۔ پس آج تم میں سے کوئی بھی کسی کو نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا اور ہم ظالموں سے کہہ دیں گے کہ اس آگ کے عذاب کا مزہ چکھو جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے۔ اور جب ہماری واضح آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص تو بس چاہتا ہے کہ جن کی تمہارے باپ دادا پرستش کرتے تھے ان سے تم کو روک دے اور (وہ یہ بھی) کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) تو بس ایک گھڑا ہوا جھوٹ ہے اور جب کافروں کے پاس پہنچا تو اس کے بارے میں (وہ) کہتے ہیں کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر صریح جادو ہے۔ “ (سباء 34 : 41 تا 43) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” یہ لوگ نہ تو زمین میں (اللہ تعالیٰ کو) عاجز کردینے والے ہیں نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی کارساز ہے انہیں دوگنا عذاب ہوگا (کیونکہ وہ ہٹ دھرم ہیں) کہ وہ نہ تو حق بات سن سکتے ہیں نہ حقیقت پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانیں تباہی میں ڈالیں اور زندگی میں جو کچھ افتراء پردازی کرتے رہے وہ سب ان سے کھوئی گئی۔ “ (ھود 11 : 20 تا 21) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور جس دن ہم ان سب کو اپنے حضور اکٹھا کریں گے اور پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے تم اور وہ سب جنہیں تم نے شریک ٹھہرایا تھا اپنی جگہ سے نہ ہلو اور پھر ایک دوسرے سے انہیں الگ الگ کردیں گے تب وہ ہستیاں جنہیں اللہ کے ساتھ شریک بنایا گیا ہے کہیں گی ، یہ بات تو نہ تھی کہ تم ہماری پرستش کرتے تھے۔ آج کے دن ہم میں اور تم میں اللہ کی گواہی بس کرتی ہے اور تمہاری پرستاریوں سے ہم یک قلم بیخبر تھے۔ پس اس دن ہر آدمی جان لے گا کہ جو کچھ وہ پہلے کرچکا ہے اس کی حقیقت کیا تھی ، سب اللہ کے حضور کہ ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جائیں گے اور حقیقت کے خلاف جس قدر افتراء پردازیاں کرتے رہے ہیں سب ان سے کھوئی جائیں گی۔ “ (یونس 10 : 28 تا 30)
Top