Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 219
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ١ؕ قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ١٘ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا١ؕ وَ یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلِ الْعَفْوَ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ پوچھتے ہیں آپ سے عَنِ : سے الْخَمْرِ : شراب وَالْمَيْسِرِ : اور جوا قُلْ : آپ کہ دیں فِيْهِمَآ : ان دونوں میں اِثْمٌ : گناہ كَبِيْرٌ : بڑا وَّمَنَافِعُ : اور فائدے لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاِثْمُهُمَآ : اور ان دونوں کا گناہ اَكْبَرُ : بہت بڑا مِنْ : سے نَّفْعِهِمَا : ان کا فائدہ وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے مَاذَا : کیا کچھ يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں قُلِ : آپ کہ دیں الْعَفْوَ : زائد از ضرورت كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کرو
تم سے لوگ شراب اور جوئے کے متعلق دریافت کرتے ہیں ، ان سے کہہ دو کہ ان دونوں چیزوں میں نقصان بہت ہے اور انسان کے لیے فائدے بھی ہیں لیکن ان کا نقصان ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے اور تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟ ان سے کہہ دو جس قدر فاضل ہو ، دیکھو اللہ اس طرح کے احکام دے کر تم پر اپنی نشانیاں واضح کردیتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو
حرمت شراب اور اس کے متعلقہ احکام : 373: ابتدائے اسلام میں عام رسومات جاہلیت کی طرح شراب خوری بھی عام تھی۔ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ میں بھی شراب اور قمار یعنی جوا کھیلنے کا رواج عام تھا۔ عام لوگ تو ان دونوں چیزوں کے صرف ظاہری فوائد کو دیکھ کر ان پر فریفتہ تھے۔ ان کے اندر جو بہت سے مفاسد اور خرابیاں ہیں ان کی طرف ان کی نظر ہی نہ تھی۔ لیکن سنت اللہ یہ بھی ہے کہ ہر قوم اور ہر خطہ کے لوگوں میں کچھ عقل و فکر والے بھی ہوتے ہیں جو طبیعت پر عقل کو غالب رکھتے ہیں۔ کوئی طبعی خواہش اگر عقل کے خلاف ہو تو وہ اس خواہش کے پاس نہیں جاتے۔ اس معاملہ میں نبی کریم ﷺ کا مقام تو بہت ہی بلند تھا کہ جو چیز کسی وقت حرام ہونے والی تھی آپ ﷺ کی طبیعت پہلے ہی اس سے نفرت کرتی تھی۔ صحابہ کرام میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے شراب حرام نہ ہونے کے زمانے میں بھی کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد چند صحابہ کرام کو اس کے مفاسد کا زیادہ احساس ہوا حضرت عمر فاروق ، معاذ بن جبل اور چند انصار صحابہ اس احساس کی بناء پر نبی کریم ﷺ کی خد مت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ شراب اور قمار انسان کی عقل کو بھی خراب کرتے ہیں اور مال بھی ان سے برباد ہوتا ہے ۔ ان کے متعلق آپ ﷺ کا کیا ارشاد ہے اس سوال کے جواب میں آیت زیر نظر نازل ہوئی۔ یہ پہلی آیت ہے جس میں شراب اور جوئے سے مسلمان کو روکنے کا ابتدائی قدم اٹھایا گیا۔ اس آیت میں بتایا گیا کہ شراب اور جوئے میں اگرچہ لوگوں کے کچھ ظاہری فوائد ضرور ہیں لیکن ان دونوں میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں پیدا ہوجاتی ہیں جو ان کے منافع اور فوائد سے بڑھی ہوئی ہیں اور گناہ کی باتوں سے وہ چیزیں مراد ہیں جو کسی گناہ کا سبب بن جاتی ہیں ۔ مثلاً شراب میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ عقل و ہوش زائل ہوجاتا ہے جو تمام کمالات اور شرف انسانی کا اصل الاصول ہے کیونکہ عقل ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو برے کاموں سے روکتی ہے۔ جب وہی درست نہ رہی تو ہر برے کام کے لئے راستہ ہموار ہوگیا۔ زیر نظر آیت میں صاف طور پر شراب کو حرام تو نہیں کہا گیا مگر اس کی خرابیاں اور مفاسد ضرور بیان کردیئے گئے کہ شراب کی وجہ سے انسان بہت سے گناہوں اور خرابیوں میں مبتلا ہو سکتا ہے گویا اس کے ترک کرنے کے لئے ایک قسم کا مشورہ دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بعض صحابہ کرام تو اس مشورہ یا اشارہ ہی کو قبول کر کے اسی وقت شراب کو چھوڑ بیٹھتے تھے اور بعض نے یہ خیال کیا کہ اس آیت نے شراب کو حرام تو نہیں کیا بلکہ مفاسد دین کا سبب بننے کی وجہ سے اس کو سبب گناہ قرار دیا ۔ ہم اس کا اہتمام کریں گے کہ وہ مفاسد واقع نہ ہوں تو پھر شراب میں کوئی حرج نہیں اس لئے وہ پیتے رہے یہاں تک کہ ایک روز یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے صحابہ کرام میں سے چند اپنے دوستوں کی دعوت کی کھانے کے بعد حسب دستور شراب پی گئی ۔ اس حال میں نماز کا وقت آگیا سب نماز کے لئے کھڑے ہوگئے لیکن تلاوت صحیح نہ کی جاسکی ۔ اس پر شراب سے روکنے کے لئے دوسرا قدم اٹھایا گیا اور اس آیت کا نزول ہوا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى ” یعنی اے ایمان والو ! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جائو ۔ نشہ فرو ہونے کے بعد نماز پڑھو۔ “ اس میں خاص اوقات صلوٰۃ کے اندر شراب کو قطعی طور پر حرام کردیا گیا باقی اوقات میں اتنی سختی روانہ رکھی گئی۔ اگرچہ بہت سے لوگ اس حکم کے آنے کے بعد اس سے نفرت کرنے لگے اور بعض نے مطلقاً اس ام الامراض مرض سے توبہ کرلی لیکن چونکہ واضح حکم حرمت کا نہ تھا اس لئے کبھی کبھار کوئی واقعہ ایسا بھی پیش آجاتا جو نہایت اخلاق سوز ہوتا۔ قانون الٰہی میں یہ ڈھیل کیوں رکھی گئی ؟ اس میں بڑی حکمتیں ہیں اور امت کے لئے بیشمار اسباق موجود ہیں جن کے بیان کا یہ موقع نہیں ۔ ان دونوں آیتوں کے بعد تیسری آیت سورة مائدہ میں نازل ہوئی جس میں شراب کو مطلقاً حرام قرار دے دیا گیا ۔ یہ دو آیتیں ہیں جو درج ذیل ہیں : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 0090 اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِ 1ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ 0091 (المائدہ 5 : 90 اتا 91) ” اے مسلمانو ! بلاشبہ شراب ، جوا ، معبودانِ باطل کے نشان اور پانسے شیطانی کاموں کی گندگی ہے تم ان سے اجتناب کرو (اور اس گندگی کے قریب مت جاؤ ) تاکہ تم کامیاب ہو۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے باز رکھے ، پھر کیا تم باز رہنے والے ہو یا نہیں ؟ “ اس آیت میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کی گئی ہیں ایک شراب دوسرے قماز بازی اور تیسرے وہ مقامات جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنے یا اللہ کے سوا کسی اور نام پر قربانی کرنے اور مذر و نیاز چڑھانے کیلئے مخصوص کئے گئے ہوں اور چوتھے ، پانسے موخررالذکر دو چیزوں کی تشریح تو وقت پر آئے گی لیکن شراب اور قمار کا ذکر زیر نظر آیت سے ہے جس کی یہاں تشریح کی جا رہی ہے اس کا مختصر ذکر یہاں کیا جائے گا۔ شراب کی ممانعت کے سلسلہ میں دو حکم پہلے آ چکے تھے۔ اب اس آخری حکم نے نہ صرف ممانعت کی بلکہ شراب کو دوسری چیزوں کے ساتھ مکمل طور پر حرام قرار دے دیا۔ احادیث میں آتا ہے کہ اس آخری حکم کے نازل ہونے سے قبل نبی کریم ﷺ نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو شراب سخت ناپسند ہے۔ بعید نہیں کہ اس کا قطعی حکم آجائے لہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب ہے وہ نہ تو اسے پی سکتا ہے اور نہ ہی بیچ سکتا ہے بلکہ وہ اسے ضائع کر دے۔ چناچہ اس حکم کا ملنا تھا کہ مدینہ کی گلیوں میں شراب بہا دی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ ہم یہودیوں کو تحفہ میں کیوں نہ دے دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” جس نے اس کو حرام کیا ہے اس نے اس کو بطور تحفہ دینے سے بھی منع فرما دیا ہے۔ “ بعض نے یہ بھی پوچھا کہ ہم اس کو سر کے میں کیوں نہ تبدیل کرلیں ؟ آپ ﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا اور حکم دیا کہ نہیں بس اسے بہا دو ایک صحابی نے باصرار دریافت کیا کہ دوا کے طور پر تو استعمال کی اجازت ہے ؟ فرمایا نہیں ، وہ دوا نہیں ہے بلکہ بیماری ہے۔ ایک اور صاحب نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم ایسے علاقے کے رہنے والے ہیں جو نہایت سرد ہے اور ہمیں محنت بھی کرنا پڑتی ہے کیا ہم لوگ شراب سے تکان دور کرسکتے ہیں اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا جو چیز تم پیتے ہو وہ نشہ کرتی ہے ؟ انہوں نے عرض کی ہاں ! فرمایا تو اس سے پرہیز کرو۔ انہوں نے عرض کی مگر ہمارے علاقے کے لوگ تو نہیں مانیں گے فرمایا ان سے جنگ کی جائے گی اگر وہ نہیں مانیں گے۔ عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لعن اللہ الخمر وشاربھا و سا قیھا و با ئعھا و مبتا عھا وعا صرھا و معتصرھا و حاملھا والحمولتہ الیہ۔ اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اس کے پینے والے پر ، اٹھا کرلے جانے والے پر اور اس شخص پر جس کے لئے وہ اٹھا کرلے جائی گئی ہو اور اس کے ہبہ کرنے والے پر۔ (نسائی ، جامع ترمذی) ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس دستر خوان پر کھانا کھانے سے منع فرمایا جس پر شراب پی جا رہی ہو۔ ابتداء ً آپ ﷺ نے ان برتنوں تک کے استعمال کو منع فرما دیا تھا جن میں شراب بنائی اور پی جاتی تھی۔ بعد میں جب شراب کی حرمت کا حکم پوری طرح نافذ ہوگیا تب آپ ﷺ نے برتنوں پر سے یہ قید اٹھائی۔ ” خمر “ کا لفظ عرب میں انگوری شراب کے لئے استعمال ہوتا تھا ۔ اور مجازاً گیہوں ، جو ، کشمکش ، کھجور اور شہد کی شرابوں کے لئے بھی استعمال ہونے لگا۔ مگر نبی کریم ﷺ نے حرمت کے اس حکم کو تمام ان چیزوں پر عام کردیا جو نشہ پیدا کرنے والی ہوں۔ چناچہ حدیث میں حضور نبی کریم ﷺ کے یہ واضح ارشادات ہمیں ملتے ہیں کہ کل مسکر خمر و کل مسکر حرام ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور نشہ آور چیز حرام ہے۔ کل شراب اسکر فھو حرام ہر وہ مشروب جو نشہ پیدا کرے حرام ہے۔ وانا انھی عن کل مسکر اور میں ہر نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں۔ سیدنا عمر فاروق ؓ نے جمعہ کے خطبہ میں شراب کی یہ تعریف بیان کی تھی کہ الخمر ما خا مرالعقل خمر سے مراد وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانک لے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ اصول بھی بیان فرمایا کہ : ما اسکر کثیرہ فقلیلتہ حرام جس چیز کو کثیر تعداد نشہ پیدا کرے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے اور ما اسکر الفرق منہ فعل الکف منہ حرام جس چیز کا ایک پورا قرابہ نشہ پیدا کرتا ہو اس کا ایک چلو پینا بھی حرام ہے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں شراب پینے والے کو اس جرم میں جب گرفتار کر کے لایا جاتا تھے۔ لات ، مکہ اور کوڑے وغیرہ مارے جاتے تھے اور اس طرح چالیس ضربیں اس کو دی جاتی تھیں۔ سیدنا عمر فاروق کے زمانہ میں بھی ابتداء ً 40 کوڑوں ہی کی سزا رہی پھر جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اس جرم سے باز نہیں آتے تو انہوں نے صحابہ کرام کے مشورے سے 80 کوڑے سزا مقرر کی اور بعد کے زمانوں میں ان دونوں سزائوں میں سے ایک کبھی 80 اور کبھی 40 کوڑے دی جاتی رہی۔ جس کا یہ صاف مطلب لگتا ہے کہ یہ سزا ان سزائوں میں سے ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اسلامی حکومت کی ذمہ داری پر چھوڑی ہیں کہ وہ جو سزا وقت کے حالات کے مطابق چاہیں متعین کرلیں ۔ جرم زیادہ ہوگا تو سزا سخت کی جاسکتی ہے تاکہ اس مرض کا قلع قمع ہو سکے ۔ مَیْسَرَیعنی جوا کیا ہے ؟ 374: ” مَیْسَرَ “ مصدر ہے اصل لغت میں اس کے معنی تقسیم کرنے کے ہیں اور ” یاسر “ تقسیم کرنے والے کو کہا جاتا ہے ۔ جاہلیت عرب میں مختلف قسم کے جوئے رائج تھے جن میں سے ایک قسم یہ بھی تھی کہ اونٹ ذبح کر کے اس کے حصے تقسیم کرنے میں جوا کھیلا جاتا تھا بعض کو ایک یا زیادہ حصے ملتے اور بعض بالکل محروم رہ جاتے تھے۔ محروم رہنے والے کو پورے اونٹ کی قیمت ادا کرنی پڑتی تھی اور گوشت سب کا سب فقراء ہی میں تقسیم کردیا جاتا تھا اور وہ لوگ خود استعمال نہ کرتے تھے۔ اس خاص جوئے میں چونکہ فقراء کا فائدہ اور جوا کھیلنے والوں کی سخاوت بھی تھی اس لئے اس کھیل کو باعث فخر سمجھتے تھے ان کے خیال میں یہ ایک قسم کی تفریح بھی ہوگئی اور فقراء کا بھلا بھی ۔ جو شخص اس میں شریک نہ ہوتا اس کو کنجوس اور منحوس خیال کرتے تھے گویا یہ ان کا قومی مشغلہ تھا۔ اس لفظ میں جس چیز کو حرام کیا گیا اس کی تین بڑی قسمیں آج بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں اور آیت کا حکم ان تینوں پر حاوی ہے۔ ! : مشرکانہ فال گیری۔ جس میں کسی دیوی یا دیوتا سے قسمت کا فیصلہ پوچھا جاتا ہے یا غیب کی خبر دریافت کی جاتی ہے یا باہمی نزاعات کا تصفیہ کرایا جاتا ہے۔ مشرکین مکہ نے اس غرض کے لئے کعبہ کے اندر ہبل دیوتا کے بت کو مخصوص کر رکھا تھا۔ اس کے استھان میں سات تیر رکھے تھے جن پر مختلف الفاظ اور فقرے کندہ تھا۔ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہو یا کھوئی ہوئی چیز کا پتہ پوچھنا ہو یا خون کے مقدمہ کا فیصلہ مطلوب ہو غرض کوئی کام بھی ہو اس کے لئے ہبل کے پاس پہنچ جاتے اس کا نذرانہ پیش کرتے اور ہبل سے دعا مانگتے کہ ہمارے اس معاملہ کا فیصلہ کر دے ۔ پھر پانسہ دار ان تیروں سے فال نکالتا تھا اور جو تیر بھی فال میں نکل آتا اس پر لکھے ہوئے لفظ کو ہبل کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح کی فال گیری کی شکلیں آج بھی موجود ہیں صرف الفاظ کا الٹ پھیر کرلیا گیا ہے۔ " : توہم پرستانہ فال گیری جس میں زندگی کے معاملات کا فیصلہ عقل و فکر سے کرنے کی بجائے کسی وہمی و خیالی چیز یا کسی اتفاقی شے کا ذریعہ کیا جاتا ہے۔ یا قسمت کا حال ایسے ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا وسیلہ علم غیب ہونا کسی علمی طریق سے ثابت نہیں ہے۔ رمل ، نجوم ، جفر ، مختلف قسم کے شگون ، نچھتر اور فال گیری کے لئے بیشمار طریقے اس قسم میں داخل ہیں۔ #: جوئے کی قسم کے وہ سارے کھیل اور کام جن میں اشیاء کی تقسیم کا مدار حقوق اور خدمات اور عقلی فیصلوں پر رکھنے کے بجائے محض کسی اتفاقی امر پر رکھ دیا جائے۔ مثلاً یہ کہ لاٹری میں اتفاقاً فلاں شخص کا نام نکل آیا ہے لہٰذا ہزارہا آدمیوں کی جیب سے نکلا ہوا روپیہ اس ایک شخص کی جیب میں چلا جائے ۔ یا یہ کہ علمی حیثیت سے تو ایک معمہ کے بہت سے حل صحیح ہیں مگر انعام وہ شخص پائے گا جن کا حل کسی معقول کوشش کی بنا پر نہیں بلکہ محض اتفاق سے اس حل کے مطابق نکل آیا ہو یہ جو صاحب معمہ کے صندوق میں بند ہے۔ ان تینوں اقسام کو حرام قرار دینے کے بعد قرعہ اندازی کی صرف وہ سادہ صورت اسلام میں جائز رکھی گئی ہے جس میں دو برابر کے جائز کاموں یا دو برابر کے حقوق کے درمیان فیصلہ کرنا ہو مثلاً ایک چیز پر دو آدمیوں کا حق ہر حیثیت سے بالکل برابر ہے اور فیصلہ کرنے والے کے لئے ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے اور خود ان دونوں میں سے بھی کوئی اپنا حق خود چھوڑنے کے لئے تیار نہیں مثلاً ایک گائے کو دو آدمیوں میں برابر تقسیم ہونا ہے ظاہر ہے کہ اب گائے کی قیمت پڑے گی اور ایک کو قیمت اور دوسرے کو گائے ملے گی اب دونوں کا خیال ہے کہ گائے ہم کو ملے پھر کیا ہوگا کہ گائے کی قیمت مقرر کردی گئی اور اس تقسیم کے لئے قرعہ اندازی ہوگئی کہ گائے کون لے گا اور رقم کون قرعہ اندازی میں جس کو قیمت ملے گی وہ قیمت لے لے گا اور دوسرا گائے رکھ لے گا۔ قمار یعنی جوئے میں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ دفعتاً بہت سے گھر برباد ہوجاتے ہیں۔ لکھ پتی آدمی فقیر ہوجاتا ہے جس سے صرف یہی شخص متاثر نہیں ہوتا جس نے جرم قمار کا ارتکاب کیا ہے بلکہ اس کا پورا گھرانہ اور خاندان مصیبت میں پڑجاتا ہے اور اگر غور کیا جائے تو پوری قوم اس سے متاثر ہوتی ہے کیونکہ جن لوگوں نے اس کی مالی ساکھ کو دیکھ کر اس سے معاہدے اور معاملات کئے ہوئے ہیں یا قرض دئے ہوئے ہیں وہ اب دیوالیہ ہوجائے گا تو ان سب پر اس کی بربادی کا اثر پڑنا لازمی ہے۔ قمار میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کی قوت عملی سست ہو کر وہمی منافع پر لگ جاتی ہے اور وہ بجائے اس کے کہ اپنے ہاتھ یا دماغ کی محنت سے دولت بڑھاتا رہے اس کی فکر اس بات میں محصور ہو کر رہ جاتی ہے کہ کسی طرح وہ دوسرے کی کمائی پر اپنا قبضہ جمائے۔ ضروریات سے زائد مال راہ الٰہی میں خرچ کردینا ہی عفو ہے : 375: فرض زکوٰۃ ادا ہوجانے کے بعد باقی مال پاکیزہ ہوجاتا ہے گویا مال کی اسلامی طہارت زکوٰۃ ہی ہے۔ اس کے بعد مال کو انسانی طبیعت کے اپنے تقاضے پر چھوڑ دیا گیا ہے اور ترغیب کے لئے ہی الفاظ استعمال فرما دیئے گئے ہیں کہ جو ضروریات سے زائد ہو وہ راہ خدا میں خرچ کر دو ہر انسان اپنی ضرورت کو خود ہی سمجھ سکتا ہے۔ کسی دوسرے آدمی کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے کے جائز معاملات میں مداخلت کرے۔ انسان کی ضروریات اور حاجات کتنی قسم کی ہوتی ہیں اور پھر ہر طبیعت کا اپنا تقاضا ہوتا ہے۔ گویا اس سوال نے یہ وضاحت فرما دی کہ دینے والوں کو اللہ دیتا ہے یاد رکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ ارشاد الٰہی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے فرمایا : وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ کَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا 0067 (الفرقان 25 : 67) ” اور یہ وہ لوگ ہیں جو (محتاط رہتے ہیں) جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اسراف کرتے ہیں نہ تنگی کرتے ہیں بلکہ وہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا : وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا 0029 (بنی اسرائیل 17 : 29) ” اور نہ تو اپنا ہاتھ اتنا سکیڑ لو کہ گردن میں بندھ جائے اور نہ بالکل پھیلا دو دونوں کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر طرف سے ملامت پڑے گی اور درماندہ ہو کر رہ جاؤ گے۔ “ فرمایا مال و دولت خرچ کرنے میں اور ہر بات میں اعتدال کی راہ اختیار کرو۔ کسی ایک طرف جھک نہ پڑو۔ مثلاً خرچ کرنے پر آئے تو سب کچھ اڑا دیا اور پھر بھیک مانگتے پھرے اور جب احتیاط کرنی چاہی تو اتنی کی کہ کنجوسی پر اتر آئے۔ دراصل تمام محاسن و فضائل کی بنیادی حقیقت توسط و اعتدال ہے اور جتنی برائیاں بھی پیدا ہوتی ہیں افراط وتفریط سے پیدا ہوتی ہیں۔ بس ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اللہ کی راہ میں جو مال خرچ کیا جائے گا وہ ” العفو “ ہی ہوگا۔
Top