Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 223
نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ١۪ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ١٘ وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
نِسَآؤُكُمْ : عورتیں تمہاری حَرْثٌ : کھیتی لَّكُمْ : تمہاری فَاْتُوْا : سو تم آؤ حَرْثَكُمْ : اپنی کھیتی اَنّٰى : جہاں سے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقَدِّمُوْا : اور آگے بھیجو لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے وَاتَّقُوا : اور دوڑو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم مُّلٰقُوْهُ : ملنے والے اس سے وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
تمہاری بیویاں تمہارے لیے ایسی ہیں جیسے کاشت کی زمین پس جب چاہو اپنی زمین کاشت کرو اور اپنے لیے مستقبل کا سروسامان بھی کرو یاد رکھو کہ اس کے حضور بھی حاضر ہونا ہے اور ان کیلئے جو ایمان رکھتے ہیں بشارت ہی بشارت ہے
ازدواجی زندگی کی ایک ضرورت افزائش نسل ہے : 379: مرد و عورت کے باہمی تعلقات و روابط میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا حقیقی مقصد نسل انسانی کی زیادتی اور اس کی نشونما ہے اس کے لئے قرآن کریم نے کھیتی کا بہترین لفظ استعمال کیا ہے جس سے ایک طرف تو یہ مقصد تھا کہ خاوند اور بیوی کے نازک تعلقات کو ایسے اشارات و کنایات میں بیان کیا جائے کہ ہر گھر میں مرد ، عورت ، لڑکے اور لڑکیاں ، چھوٹے اور بڑے اس کتاب کو پڑھ سکیں اور کسی کو حجاب نہ پیدا ہو یہ ایک ایسا عظم الشان معجزہ ہے جو دنیا میں قرآن کے سوا اور کسی کتاب کو حاصل نہیں اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم یہ بھی چاہتا تھا کہ ان تعلقات کی حقیقی غرض وغایت بھی بیان کر دے۔ حیض کے ایام میں امراض خبیثہ اور مفاسد کا اندیشہ تھا اور ضرر و نقصان کی وجہ سے یہ غرض نہیں حاصل ہو سکتی تھی اس لئے پہلی آیت میں صحبت کی ممانعت کردی کہ گویا ابھی زمین قابل کاشت نہیں اگر بیچ ڈال دیا گیا تو اکارت جائے گا۔ پھر غور کرو کہ کھیت کا لفظ اپنے اندر کیا خوبی رکھتا ہے ۔ کھیت کہتے ہی اس موزوں زمین کو جس میں تخم ریزی ہوتی ہے اور اس میں ہر ضرورت کی چیز غلّہ نباتات کا نشو ونما ہوتا ہے۔ کھیت والے اسے اپنی بہت بڑی دولت سمجھ کر نہایت درجہ عزیز رکھتے ہیں اور اس سے خوب نفع حاصل کرتے ہیں۔ اسلام نے ہم بستری کا اصل مقصد طلب اولاد ہی کو رکھا ہے گو اس کی دوسرے پہلو بھی یعنی لذت نفسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا اور اس تلمیح میں یہ اشارہ بھی کردیا کہ کھیت صرف اتنا حصہ ہی ہے جس میں بیچ کاشت ہو سکتا ہے باقی جو کچھ ہوگا وہ غیر فطری طریقہ ہے جس کی ممانعت بدستور باقی ہے۔ وقت اور حالات کے مطابق بیچ ڈالنا ہی فطری طریقہ کاشت ہے : 380: فرمایا پاک ہونے کے بعد جب اور جس طریق پر آرزو ہو اس کے قریب جاسکتے ہو کوئی شخص اپنی کھیتی کو برباد کرنا نہیں چاہتا ؕ۔ اصل غرض پیداوار ہوتی ہے ۔ کسان ایک قانون کے تحت خاص وقت میں بیچ بوتا ہے ہل چلاتا ہے اس کی آبیاری کرتا ہے اور وقت آنے پر فضل کاٹ لیتا ہے ایسے ہی ایک شخص تمام ان لغو و مہمل طریقوں کو یک قلم ترک کر دے جس سے انسانی نطفہ کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو اور شریعت کے قاعدے کے مطابق صحبت کرے تاکہ اولاد پیدا ہو۔ جو ان مقاصد کی تکمیل کرے جن کے لئے باپ کی زندگی وقف تھی۔ خداوند قدوس نے تمہیں ایک قانون نوازش کردیا ہے۔ اس کی پابندی کا خیال رہے یہود و نصاریٰ اور مجوس و مشرکین عرب کا دستور العمل تمہیں معلوم ہے۔ مسلمانوں کو خوش ہونا چاہئے کہ قانون اسلام میں ان تمام تکالیف و شدائد کا سدباب کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہرگز تنگی اور مصیبت ڈالنے کا آرزو مند نہیں۔ فرمایا ” اپنے حق میں آئندہ کے لئے کچھ کرتے رہو۔ “ آئندہ کے لئے کچھ بھیجنے کی چیز کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ عمل صالح ہو سکتے ہیں۔ یہ گویا اس کی تاکید ہے کہ عین لذات و التذاذ کے مشغلوں کے وقت بھی اپنی عبدیت اور اپنی ذمہ داری کو بھول نہ جائو تمام تر لذت پرستی ہی میں غرق نہ ہو جائو بلکہ ہو سکے تو اپنی لذت کو بھی عین طاقت و عبادت بنا لو ۔ ہر حال میں یاد رکھو کہ یہ دنیا کی رعنائیاں عارضی ہیں اور دنیا کی ساری لذتیں بھی عارضی ہیں۔ اس بات کو ذہن نشین کرلو گے تو عین موقعہ لذت پر بھی قدم نہیں ڈگمگائیں گے اور جس چیز کی اجازت دی جا رہی ہے اس سے غلط فائدہ نہیں اٹھا سکو گے۔
Top