Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا يَا آدَمُ : اے آدم اسْكُنْ : تم رہو اَنْتَ : تم وَزَوْجُکَ : اور تمہاری بیوی الْجَنَّةَ : جنت وَكُلَا : اور تم دونوں کھاؤ مِنْهَا : اس میں سے رَغَدًا : اطمینان سے حَيْثُ : جہاں شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پھر تم ہوجاؤگے مِنَ الظَّالِمِیْنَ : ظالموں سے
ہم نے آدم سے کہا ” اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو ، جو چاہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ پیو اور امن و چین کی زندگی بسر کرو مگر ہاں ! دیکھو وہ جو ایک درخت ہے اس کے قریب مت جانا ورنہ زیادتی کرنے والوں میں شمار ہونے لگو گے
آدم (علیہ السلام) کی جنت اول : 82: یہاں دراصل فطرۃ انسانی کی اس کمزوری کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لیتا ہے۔ اور خلق انسانی کا پہلا مرتبہ علم تھا۔ دوسرے مرتبہ میں اس کو بزرگی اور رفعت عطا ہوئی کہ اس عالم دنیا میں جتنی مخلوق ہے ، اس میں سب سے زیادہ شرف اس انسان کو حاصل ہے یعنی وہ اشرف المخلوقات ہے ، پھر تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ اسے راحت و آرام کی زندگی میسر آئے اور یہی اس کی جنت اول ہے۔ پھر غور کرو کہ جب تیسرے مرتبہ یعنی آرام و سکون کی زندگی بسر کرنے کا ذکر آیا تو ساتھ ہی آدم کی بی بی بھی شامل ہوگئیں جس سے اس بات کی تفہیم کرائی گئی کی راحت و آرام کی زندگی اکیلا انسان حاصل نہیں کرسکتا۔ ہاں ! علم اور بزرگی حاصل کرسکتا ہے کیونکہ ان دونوں چیزوں کا تعلق قوائے ملکوتی سے ہے۔ پھر قوت بہیمیہ کا کیا ہوا ؟ جب کہ انسان دونوں قوتوں کا مجموعہ ہے۔ چناچہ دوسری جگہ فرمایا : خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا (الروم 30 : 21) ” تمہاری جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے سبب راحت و آرام پاؤ ۔ “ یعنی راحت و آرام کی زندگی بسر کرنے کے لئے زوجین کا ہونا ضروریات زندگی کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ مختصر یہ کہ مسجود ملائیکہ کا خطاب ملنے کے بعد آدم (علیہ السلام) کو جنت میں زندگی بسر کرنے اور مشروط طور پر سکون آرام حاصل کرنے کے لئے بیوی کو ساتھ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس جنت سے مراد بہشت ہے جس کا وعدہ اعمال صالحہ پر ہے ؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں۔ کیونکہ وہ جنت جو بعد موت حاصل ہوگی اس سے انسان کبھی نکالا نہیں جائے گا اور نہ ہی اس جنت میں کسی شخص کو کسی تکلیف کا سامنا ہوگا۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : لَا یَمَسُّهُمْ فِیْهَا نَصَبٌ وَّ مَا ہُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِیْنَ 0048 (الحجر 15 : 48) ” اس جنت کے اندر کوئی تکلیف ان کو چھوئے گی بھی نہیں اور نہ ہی وہ کبھی اس سے نکالے جائیں گے۔ “ اور ایسا مضمون قرآن کریم میں بہت سی مختلف جگہوں پر بیان کیا گیا ہے مزید دیکھو ( سورة طہٰ 20 : 18 ، 19) لہٰذا ضروری ہے کہ وہ جنت جو آخرت پر ملنے والی ہے یہاں وہ مراد نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ وہ جنت ہے جس میں آدم (علیہ السلام) کو عارضی طور پر رکھا گیا تھا پھر وہاں تکلیف بھی پہنچی اور اس سے ہاتھ بھی دھونے پڑے۔ یعنی وہاں سے نکالے بھی گئے اور نکلنا بھی پڑا۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی زمین کا ایک ٹکڑا ہوگا جو اس غرض کے لئے مخصوص کردیا گیا جس میں قوائے مثالیہ کے ذریعہ جنت کے آثار و مختصات پیدا کردیئے گئے ہوں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ آدم (علیہ السلام) خلافت ارضی کے لئے خلق ہوئے تھے پھر اس حقیقی جنت میں کیسے رہ سکتے تھے ؟ اس جنت ارضی میں بھی انہیں صرف اس لئے عارضی طور پر رکھا گیا تھا کہ ان کی قوتیں نشونما حاصل کریں اور زمین میں کام کرنے کے قابل ہوجائیں۔ ویسے بھی آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وہ سب سامان زمین میں پیدا کردیئے ہیں جن سے انسان کی بھوک دور ہوتی ہے اور پیاس بجھتی ہے جن سے لباس ملتا ہے اور رہنے کے لئے مکان میسر آتا ہے اور یہی چار چیزیں انسان کی اصل ضرورت ہیں لیکن یہاں یہ ساری چیزیں کوشش سے حاصل ہوتی ہیں۔ پھر انسان میں اللہ تعالیٰ نے طاقت بھی رکھ دی جس کو استعمال کر کے یہ چیزیں حاصل کرسکتا ہے ، اور پھر علم عطا فرمایا اور وہ صلاحیتیں اس کی فطرت میں رکھ دیں کہ جوں جوں علم حاصل کرتا جائے اپنی طاقت و قوت میں بھی اضافہ کرتا جائے۔ جنت کی مشروط زندگی کا انجام : 83: آدم (علیہ السلام) کی مثال اس جنت میں جہاں ان کو عارضی طور پر رکھا گیا اس بچہ کی سی ہے جو ابھی ماں کی گود میں ہے۔ کچھ مدت تک اس کا صرف دودھ پر گزارا ہے کہ کھانے کی قابلیت اس میں پیدا ہو۔ جس طرح کوئی بچہ ہمیشہ کے لئے ماں کے دودھ پر گزارا نہیں کرسکتا اسی طرح آدم (علیہ السلام) ابدی طور پر اس جنت میں نہیں رکھے جاسکتے بلکہ جس وقت ان میں محنت و مشقت کی استعداد پیدا ہوجائے گی فوراً وہاں سے نکال دیئے جائیں گے اوپر مذکور ہوا کہ آدم (علیہ السلام) کو جنت میں جو رکھا گیا تھا وہ مشروط طور پر تھا۔ وہ شرط کیا تھی ؟ وہ شرط یہ تھی کہ انہیں ایک درخت کے قریب جانے سے روک دیا گیا تھا۔ ہمارے مفسرین نے اس درخت کی حقیقت و ماہیت پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن واقع یہ ہے کہ وہ تمام و کمال جو لانئی طبع کے سوا اور کچھ نہیں۔ کتاب و سنت سے اس بات کا پتہ نہیں لگتا کہ وہ درخت کون سا درخت ہے ؟ پھر جب ناموس الٰہی اور لسان نبوت نے خاموشی اختیار کی ہو تو ہمیں فلسفیانہ موشگافیاں کرنے کا کیا حق ہے ؟ ہاں ! اس درخت کی مثال اس کڑوی دوا کے ساتھ دی جاسکتی ہے جو ماں اپنے پستان پر یا فیڈر کی نپل پر اس لئے لگا دیتی ہے کہ بچہ دودھ پینا چھوڑ دے اور ساتھ ہی اس کی محبت بھی والدین کے ساتھ بدستور قائم رہے۔ والدہ بچہ کو اس کے قریب جانے سے روکتی ہے مگر جب وہ نہیں مانتا اور اسے منہ لگا ہی دیتا ہے تو آخر اس کا کڑوا پن اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے دودھ ترک کردے۔ یہی کیفیت آدم (علیہ السلام) کے متعلق نظر آتی ہے ، انہیں روک دیا جاتا ہے کہ اس کے قریب بھی نہ جانا ورنہ اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ آخر بھول چوک بھی تو انسانی فطرت کا خاصہ ہے ، اور اسی کا بیان یہاں مقصود حقیقی ہے۔
Top