Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا : ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ مِنْهَا : یہاں سے جَمِیْعًا : سب فَاِمَّا : پس جب يَأْتِيَنَّكُمْ : تمہیں پہنچے مِنِّیْ : میری طرف سے هُدًى : کوئی ہدایت فَمَنْ تَبِعَ : سو جو چلا هُدَايَ : میری ہدایت فَلَا : تو نہ خَوۡفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جنت سے نکل جانے کا حکم ہمارا بدستور قائم رہا اس کے لیے ہدایت تھی کہ ہماری جانب سے تم پر ہدایت و راہنمائی کی راہ حق کھولی جائے گی جو کوئی اس ہدایت کی پیروی کرے گا اس کے لیے کسی طرح کا غم و فکر نہیں
توبہ کیا قبول ہوئی کہ وحی الٰہی کی بارش ہوگئی : 86: چونکہ آدم (علیہ السلام) کے اطمینان قلب کا باعث وہی کلمات تھے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کئے گئے تھے۔ اس لئے آئندہ کے لئے یہی قاعدہ کلیہ بنا دیا گیا کہ انسانوں کے عزم و ارادہ میں قوت و طاقت پیدا کرنے ، فطرۃ اصلیہ کو خارجی اثرات و ضلالت سے بچانے ، اللہ کے حضور قلب سلیم کے ساتھ حاضر ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء و رسل کو مبعوث کیا کرے گا۔ ان صحائف و اسفار آسمانی پر ایمان لانا ہر انسان کا فرض ہوگا جو ان پیغمبروں پر نازل ہوں گے اور ان الہامات کا مقصد یہی ہوگا کہ اس کے اندر جذبات صادقہ کی تولید ہو۔ دعا کو بہترین وسیلہ فلاح و کامرانی خیال کرے اور خالق و مخلوق کے تعلقات و روابط میں کسی قسم کی کدورت نہ پیدا ہو۔ اسی موضوع پر دوسری جگہ ان الفاظ میں روشنی ڈالی گئی۔ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ 1ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ 0035 وَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَاۤ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ 1ۚ ہُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ 0036 (الاعراف 7 : 35 ، 36) ” اے اولاد آدم ! جب کبھی ایسا ہو کہ میرے پیغمبر تم میں پیدا ہوں اور میری آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں تو جو کوئی اس کی تعلیم سے متنبہ ہو کر برائیوں سے بچے گا اور اپنے آپ کو سنوارے گا اس کے لئے کسی طرح کا اندیشہ نہ ہوگا ‘ نہ کسی طرح کی غمگینی ہوگی اور جو لوگ میری آیتیں جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلے میں سرکشی کریں گے تو وہ دوزخی ہوں گے ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے۔ “ یہاں سے وحی لٰہی کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو محمد رسول اللہ ﷺ تک بد ستور جاری رہا۔ ہر قوم ، ہر بستی اور ہر علاقے میں یہ پیغام پہنچانے والے مبعوث ہوتے رہے اور لوگ ان چشموں سے سیرابی حاصل کرتے رہے ۔ ازیں بعد خاتم المرسلین ﷺ تمام دنیا کے انسانوں کے لئے اس وحی الٰہی کا بحر ذخار لائے جو رہتی دنیا تک انسانوں کی راہنمائی کرتا رہے گا ۔ اور ہر عاصی و خطاکار کو اس میں غوطہ زن ہونا ہوگا اسی طرح جس وحی الٰہی کا سلسلہ آدم (علیہ السلام) سے شروع ہوا تھا محمد رسول اللہ ﷺ پر اس کو ختم کردیا گیا اور آخری رسول کی آخری وحی بنی نوع انسان کی ہدایت کا سامان پیدا کرتی رہے گی۔ اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد۔
Top