Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے اسرائیل کے بیٹو ! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں سرفراز کیا تھا اور دیکھو اپنا ہدایت قبول کرنے کا عہد پورا کرو اور میں تو اپنا عہد پورا کرنے ہی والا ہوں اور (دوسروں سے نہیں) صرف مجھ ہی سے ڈرو
یہود کی علمی خرابی : 88: بنی اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کو کہتے ہیں کیونکہ ان کا دوسرا نام اسرائیل ہی ہے۔ قرآن کریم ان کی خرابیاں ذکر کرنے سے قبل تذکیر بالاء اللہ یعنی اپنا انعامات کا ذکر کر کے ان کے اندر حس و بیداری پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ایک شریف انسان کی تنبیہ کے لئے صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہوتا ہے کہ تم شریف زادے ہو۔ چناچہ اس آیت میں بھی انہیں بتایا گیا ہے کہ تمہارے آبائے کرام وہ لوگ تھے جن پر ہر قسم کی نعمتیں نازل ہوئیں ان کو نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ حکومت نوازش کی گئی اور یہی سب سے بڑی نعمت ہے کہ کسی امت کو ایسے اعلیٰ ترین عقائد و اخلاق کی تعلیم دی جائے کہ ان کا لازمی اور قطعی نتیجہ حکومت و جہانداری ہو۔ چناچہ دوسرے موقعہ پر اس کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا۔ وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا 1ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ 0020 (المائدہ 5 : 20) ” اور وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو کہا تھا کہ اے لوگو ! اللہ کا اپنے اوپر احسان یاد کرو۔ اسی نے تم میں نبی پیدا کئے ، تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ بات عطا فرمائی جو دنیا میں کسی کو نہیں دی گئی یعنی نبوت و حکومت دونوں تم میں جمع ہوگئیں۔ “ گویا اللہ کریم نے یہودیوں کو روحانی اور جسمانی دونوں بادشاہتیں نوازش کیں پھر ایسے لوگوں کے لئے تو یہ کبھی جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کی غلامی چھوڑ کر انسانوں کو اپنے رب بنالیں۔ اس قدر تذکیر و مؤعظت کے بعد ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس عہد کی پابندی کریں جو انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا۔ اس ایفائے عہد کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ بھی اپنے وعدے کو پورے کرے گا جو ان سے کیا گیا تھا اس آیت میں دو عہدوں کا ذکر کیا گیا ایک بنی اسرائیل کا اللہ سے اور دوسرا اللہ کا عہد بنی اسرائیل سے ، یہ دونوں عہد کیا ہیں ؟ یہ عہد حسب ذیل ہیں : بنی اسرائیل کا عہد اللہ سے : 89: ہم چاہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کا عہد خود بنی اسرائیل ہی کی الہامی کتاب تورات سے ذکر کیا جائے تاکہ ان کے لئے اور قرآن کریم کو کتاب الٰہی ماننے والوں یعنی مسلمانوں کے لئے باعث تسکین ہو چناچہ وہ عہد اس طرح ذکر کیا گیا ہے : ” تو نے آج کے دن اقرار کیا ہے کہ خداوند میرا خدا ہے اور میں اسی کی راہوں پر چلوں گا اور اس کی شرطوں اور اس کے حقوق اور اس کے حکموں کی محافظت کروں گا اور اسی کی آواز کا شنواہوں گا “ ۔ (کتاب استثناء : 18) ذرا غور کرو اور دیکھو کہ کتاب الٰہی یعنی تورات ” خداوند کی آواز “ کس کو قرار دیتی ہے اور یہی کتاب کن الفاظ میں اس پر روشنی ڈالتی ہے۔ ” میں ان کے لئے ان کے بھائیوں (اسماعیلیوں) میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا۔ “ (کتاب استثناء : 11) بنی اسرائیل کے عہد کا تذکرہ قرآن کریم میں : 1: توریت پر عمل کرنے کا عہد چناچہ ارشاد الٰہی ہے : وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ 1ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ (البقرہ 2 : 63) 2: ہفتہ کے روز احکام الٰہی سے سرتابی نہ کرنے کا عہد : وَّ قُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِی السَّبْتِ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا 00154 (النساء 4 : 154) 3: اللہ کے احکام سے کچھ نہ چھپانے کا عہد : وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَكْتُمُوْنَهٗ (آل عمران 3 : 187) 4: اللہ پر افتراء یعنی جھوٹ نہ بولنے کا عہد : اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْهِمْ مِّیْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ (الاعراف 7 : 169) 5: اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنے کا عہد۔ 6: قیام صلوٰۃ کا عہد۔ 7: زکوٰۃ ادا کرنے کا عہد۔ 8: لوگوں سے اچھی بات کرنے کا عہد۔ 9: والدین اور عزیز و ارقاب اور مسکینوں سے اچھا سلوک کرنے کا عہد۔ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ 1۫ وَ بِالْوَالِدَیْنِ۠ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ 1ؕ (البقرہ 2 : 83) اللہ کا عہد بنی اسرائیل سے : 90: اب اللہ کا عہد بنی اسرائیل سے دیکھنے کے لئے اوپر کے پیرا کو ایک بار پھر پڑھو جس میں ” ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا “ مذکور ہے کیا وہ عہد پورا ہوا یا نہیں ؟ کیوں نہیں جب محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم المرسلین بنا کر مبعوث کیا گیا تو گویا وہ عہد کی تکمیل ہوگئی۔ اور دوسری جگہ اس عہد کا ذکر اس طرح بھی کیا گیا۔ ” اور خداو ند نے بھی آج کے دن تجھ سے اقرار فرمایا جیسا اس نے تجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تو اس کی خاص گروہ ہو وے اور تو اس کے سبب احکام کی محافظت کرے اور تجھے سارے گروہوں سے جنہیں اس نے پیدا کیا صفت اور نام اور عزت میں زیادہ بالا کرے اور خداوند اپنے خدا کا مقدس گروہ ہوئے جیسا اس نے کہا۔ “ (کتاب استثناء 26 : 17) گویا اللہ تعالیٰ کا عہد بنی اسرائیل سے یہی تھا کہ ان کی لغزشوں کو معاف کر کے ان پر احسان کیا جائے گا اور اس کا ذکر قرآن کریم کے صفحات میں جگہ جگہ ملتا ہے کہ ہم نے تم پر یہ احسان کیا۔ پھر یہ احسان کیا جیسا کہ ذکر ہے : 1: من وسلویٰ نازل کرنے کا احسان : وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى (البقرہ 2 : 57) 2: پانی کے بارہ چشموں کو جاری کرنے کا احسان : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا 1ؕ (البقرہ 2 : 60) 3: بادلوں کے سایہ کرنے کا احسان : وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ (البقرہ 2 : 57) 4: سمندر سے پار کردینے کا احسان : وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ۠(البقرہ 2 : 50) 5: فرعون کے عذاب سے نجات دینے کا احسان : یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ (البقرہ 2 : 49) 6: تمام اقوام عالم پر فضیلت دینے کا احسان : اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ 0047 (البقرہ 2 : 47) بنی اسرائیل سے اب بھی یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنے عہد کی پابندی کریں ” خداوند کی آواز کے شنوا ہوں “ اور قرآن کریم پر ایمان لے آئیں تو پھر وہ ایسی قوم بنادیئے جائیں گے جو صفت ، نام اور عزت میں زیادہ بالا ہوگی۔ قانونِ الٰہی کی گرفت سے ڈرنے کی ہدایت : 91: بنی اسرائیل کو سمجھایا جارہا ہے کہ جب مذہبی جماعت کی عزت و حرمت کا اصلی سبب اللہ تعالیٰ ہی کا نام ہے اور اسی لئے لوگ اس کو اکرام و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں تو اس کے لئے کبھی یہ جائز نہیں ہوسکتا کہ وہ غیر اللہ سے بھی ڈرے بلکہ اسے صرف ایک ہی ذات کا خوف اپنے دل میں چاہیے ایک دِل دو ڈر کبھی جمع نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ایک سینہ میں دودِل۔ یاد رکھو ” اللہ ہی اس کا حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اگر تم ایمان والے ہو تو اس کا خیال رکھو۔ “ (التوبہ 9 : 13) اس سے بڑھ کر اس جماعت کی اور کیا ذلت ہوسکتی ہے ؟ کہ اللہ کے سوا کوئی دوسری قوت بھی اس کو اپنے فرائض ادا کرنے سے روک سکتی ہے۔
Top