Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا : اور تم مدد حاصل کرو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلَاةِ : اور نماز وَاِنَّهَا : اور وہ لَکَبِیْرَةٌ : بڑی (دشوار) اِلَّا : مگر عَلَى : پر الْخَاشِعِیْنَ : عاجزی کرنے والے
صبر اور نماز سے اپنی اصلاح میں مدد لو یہ ایسا عمل ہے جو انسانی طبیعت پر بہت کٹھن گزرتا ہے مگر وہ لوگ جن کے دل اللہ کے حضور جھکے ہوں
صبر و صلوٰۃ سے تعاون حاصل کرنے کی ہدایت : 98: مفہوم آیت کا عام ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ تمہیں صبر و استقامت اور دعا سے کام لینا چاہئے کہ یہی چیزیں کامیابی کی ذمہ دار و کفیل ہیں مگر اس سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جنہیں احتساب عمل کا یقین ہو ورنہ دوسروں کو ان تکالیف و مصائب کے برداشت کرنے کی ضرورت کیا ؟ اس مفہوم کو سورة بقرہ آیت 153 میں خصوصاً مسلمانوں کو مخاطب کر کے سمجھایا گیا ارشاد ہوا : ” اے مسلمانو ! صبر اور نماز سے تعاون حاصل کرتے رہو یاد رکھو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ “ دراصل سمجھایا یہ جا رہا ہے کہ دنیا دارالعمل ہے اس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دعوت اسلامی کو قبول کرنا کوئی پھولوں کا بستر نہیں جس پر آپ کو لٹا دیا جائے گا۔ یہ تو عظیم الشان اور پُر خطر خدمت ہے جس کا بار اٹھانے کے ساتھ ہی تم پر ہر قسم کے مصائب کی بارش ہوگی ۔ سخت آزمائشوں میں ڈالے جائو گے طرح طرح کے دنیوی اور ظاہری نقصانات اٹھانے پڑیں گے اور جب صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ ان تمام مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں بڑھتے چلے جائو گے تب تم پر عنایات کی بارش ہوگی اس کام کے لئے قانون الٰہی یہی ہے اور ویسے بھی محنت کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے ۔ قرآن کریم کے بعض الفاظ کا مفہوم اس طرح غلط بیان کیا جا رہا ہے کہ ان کا اصل مطلب ابھی کسی ذہن میں آنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ کبھی آسان تھا۔ پھر تعجب یہ ہے کہ غلط مطالب ہی بعض ضرب الامثال اور محاورات کے طور پر استعمال ہونے لگے ہیں۔ انہی الفاظ میں ایک صبرکا لفظ بھی ہے ہم نے تفسیر فاتحہ میں اس پر روشنی ڈال دی ہے وہاں مراجعت ان شاء اللہ آپ کے لئے مفید ہوگئی۔ کون لوگ صبر و صلوٰۃ سے تعاون حاصل کرسکتے ہیں : 99: ارشاد ہوا کہ صبر و صلوٰۃ سے تعاون حاصل کرنا کہنے کو تو آسان ہے لیکن کر کے دکھانا نہایت ہی مشکل ہے ہاں ! جو لوگ خاشعین ہیں ان کے لئے یہ مشکل امر کوئی مشکل نہیں بلکہ آسان ہے۔ محاورہ ہے کہ : ” ہمت مرداں مدد خدا “ خشوع اصل میں آواز اور نگاہ کی پستی اور تذلل کے لئے بولا جاتا ہے جس کے اندر بہت بڑا مفہوم پنہاں ہے یعنی وہ لوگ جو اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اور نظریں نیچی اور نیکی کے کام میں بالکل مگن ہوجاتے ہیں کوئی کیا کہتا ہے ، کیا کرتا ہے ؟ ان کی بلا سے ، وہ تو اپنے کام میں ایسے مصروف ہیں کہ کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ ان کو کسی کی شاباش کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی کی ملالت کی پروا ہے۔ ان کی گردنیں اللہ کے حضور جھک چکی ہیں اب ان کے پاس کوئی گردن ہی نہیں جو کسی اور چوکھٹ پر جھکائی جائے گی۔ ان کے دل اللہ کی یاد میں ہیں اور ان کے پاس اور کوئی دل نہیں جس میں کسی دوسرے کو یاد کریں گے۔ ان کو صبر کا عنوان مل چکا ہے اور ان کے لئے وہی کلید کامیابی (key to success) ہے اور وہ صبر و استقلال کے ساتھ اپنے رب کی سیدھی راہ پر گامزن ہیں۔ وہ پریشان ہوں گے کیونکہ ساری پریشانیوں کا واحد علاج صلوٰۃ یعنی صرف اللہ کی رضا کی طلب ان کے پاس ہیں۔ مشکلیں اتنی پڑیں کہ آسان ہوگئیں
Top