Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 46
الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۠   ۧ
الَّذِیْنَ : وہ جو يَظُنُّوْنَ : یقین رکھتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ مُلَاقُوْ : رو برو ہونے والے رَبِّهِمْ : اپنے رب کے وَاَنَّهُمْ : اور یہ کہ وہ اِلَيْهِ : اس کی طرف رَاجِعُوْنَ : لوٹنے والے
اور جن لوگوں کو یقین ہے کہ انہیں اپنے پروردگار سے ایک روز ملنا ہے اور اس کے پاس حاضر ہونا ہے
اللہ کی خشیت رکھنے والوں کی دو علامات : 100: آیت زیر نظر میں خشوع قلب کے دو خاص اثرات کا بیان ہورہا ہے پہلا اثر یہ ہے کہ خاشعین کو اس کا دھیان لگا رہتا ہے کہ یہ عبادتیں رائیگاں جانے والی نہیں یقیناً ہم کو ان عبادات کا اجر مل کر رہے گا کیونکہ ہم اپنے شفیق و کریم رب کے ہاں ضرور حاضر ہوں گے اور اس وقت یہ ساری محنت وصول ہوجائے گی اور حق سے کہیں بڑھ کر اجر ملے گا۔ یہ دھیان یقیناً ایسا ہے جس سے نماز کا شوق و ذوق بڑھتا ہے۔ دوسرا اثر خشوع قلب کا یہ ہے کہ خاشعین کے دل میں یہ بات اچھی طرح جم جاتی ہے کہ آخر کو واپسی مالک حقیقی کے روبرو ہوگی ، حساب ہر ہر عمل اور ترک عمل کا ہوگا اور ترک نماز کی عادت خود بخود اس سے ترک ہوجائے گی۔ عمل کی ساری سہولتیں یقین ہی کی مضبوطی اور قوت سے پیدا ہوتی ہے اور یقین کے دونوں پہلو اس مضمون میں آگئے۔ نفسیات جدید میں بھی متحرک عمل دو ہی چیزیں مانی گئی ہیں یعنی ترغیب و ترہیب اور یہ دونوں پہلو بھی یہاں واضح ہوگئے اور یاد رہے کہ اس آیت میں ” ظن “ بمعنی یقین استعمال ہوا ہے۔ اسی لئے ترجمہ میں ” جن کو یقین ہے “ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور دراصل سیاق کلام خود مفہوم متعین کرلیتا ہے اور یہاں بھی سیاق کلام کا تقاضا یہی ہے۔ بنی اسرائیل کی روئیداد کا ماحصل : گزشتہ رکوع یعنی آیت 40 سے 46 تک سات آیتوں میں بنی اسرائیل کی خرابیوں اور بداعمالیوں کا اجمالی ذکر کیا گیا تھا۔ تفصیل آگے آئے گی یہاں ارباب عقل و دانش کے لئے بغرض آسانی و سہولت ان امراض فاسدہ کی تخلیق پیش خدمت ہے ذرا عمیق نظر سے دیکھ لیں ان شاء اللہ عبرت و بصیرت حاصل ہوگی۔ 1: عملی خرابیاں : ! عہد کی پابندی نہیں کرتے۔ # کتاب الٰہی یعنی توراۃ کی تبلیغ و دعوت کے مقابلہ میں دنیوی جاہ و عزت کو ترجیح دیتے ہیں۔ $ ضروریاتِ دین سے لاپرواہ ہو کر فروعیات پر اپنی تمام تر قوت صرف کرتے ہیں۔ % حق و صداقت کو مخفی رکھتے ہیں کہ عوام الناس کے نزدیک مورد طعن وتشنیع نہ بنیں۔ 2: عملی کمزوریاں : ! اللہ کے پاک نام پر معمولی سے معمولی بدنی تکلیف بھی گوارا نہیں کرسکتے۔ " قومی نشو و ارتقاء کے لئے خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ # اجتماعی قوت اور اتحاد امت میں اختلاف و تفریق پیدا کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ 3: انتظامی نقائص : ! مذہبی احکام واوامر اور اخلاق و تہذیب کے باب میں بےانتہاء کمزوری کا اظہار کرتے ہیں۔ " دوسروں سے جب مطالبہ کرتے ہیں تو نہایت سختی برتتے ہیں۔ # احتساب عمل کا یقین نہیں رسماً نام باقی ہو تو دوسری بات ہے اس لئے نظم و ترتیب امور کی پروا نہیں کرتے۔ جن خرابیوں کا ذکر کیا گیا ہے آج اہل بصیرت کو دیکھنا چاہئے کہ کیا اس وقت یہ تمام مع شے زائد علمائے سوء جو اسلام ہی کے نام سے معروف ہیں ان میں پائی جاتی ہیں یا نہیں ؟ اب علمائے سوء کے حالات عام لوگوں پر ذرا بھی مخفی نہیں اس لئے ہم زیادہ تفصیل میں گئے بغیر پوچھتے ہیں کہ یہ جملہ زبان زد خاص و عوام نہیں کہ ” ان لوگوں کا بتایا تو کرلو لیکن ان کا کیا بالکل نہ کرنا “ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ 00
Top