Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 99
وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ١ۚ وَ مَا یَكْفُرُ بِهَاۤ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتاری اِلَيْکَ : آپ کی طرف آيَاتٍ : نشانیاں بَيِّنَاتٍ : واضح وَمَا : اور نہیں يَكْفُرُ : انکار کرتے بِهَا : اس کا اِلَّا : مگر الْفَاسِقُوْنَ : نافرمان
ہم نے تم پر سچائی کی روشن دلیلیں نازل کی ہیں جن سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر وہی جو راست بازی کے دائرے سے نکل چکا ہو
سچائی کی روشنی کو جھٹلانے والا کفر کا اندھا ہی ہو سکتا ہے : 188: مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم ایک ایسی سچائی ہے جس کی سچائی سے زیادہ روشن سورج کی روشنی بھی نہیں ہو سکتی اس لیے کہ اس نے جو بیان دیا ہے بغیر دلیل کے نہیں دیا۔ اس طرح اس کا وجود با جود دلیل و روشنی کے سوا کچھ نہیں۔ جس طرح سورج کے لئے کسی خارجی دلیل کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کا وجود خود ہی اس کی دلیل ہے بالکل اس طرح قرآن کریم کی مثال ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو خود اندھا ہو اس کو سورج کی روشنی کب نظر آئے گی ؟ جس طرح سورج کا انکار کرنے والا وہی ہو سکتا جو اندھا ہو ، اس طرح قرآن کریم کی روشنی سے بھی وہی انکار کرسکتا ہے جس کو کفر نے اندھا کردیا ہو اور جس طرح سورج کا انکار کرنے والا انکار کرے کہ سورج کا کوئی نقصان نہیں کرتا بلکہ اپنے اندھا ہونے کا ثبوت دیتا ہے اس طرح قرآن کریم کی روشنی کا انکار کرنے والا قرآن کا کچھ نقصان نہیں کرتا بلکہ خود اپنی ذات کے کفر کا اقرار کرتا ہے۔ یہود جو اپنے پیغمبروں کے معجزات کی روایتوں کے خوب عادی ہوچکے تھے اور ہر وقت انہیں کا تذکرہ کرتے تھے۔ بار بار مطالبہ کرتے تھے کہ یہ کیسا نبی ہے ؟ نبی ہے تو کوئی نشانی تو دکھلائے ؟ جواب مل رہا ہے کہ تم ایک نشانی کہتے ہو ، ہم تو انہیں متعدد نشانات دے چکے ہیں اور وہ بھی کوئی دقیق اور خفی نہیں بلکہ نمایاں اور روشن ، سب کو نظر آجانے والے ، تم تو صرف کہانیاں سناتے ہو کہ دیکھو آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے حوا پیدا ہوگئی تھیں ، ابراہیم (علیہ السلام) نے آگ کو جنت کر دکھایا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی پھینکی تھی تو اژدھا بن گیا تھا۔ مسیح (علیہ السلام) نے قم باذن اللہ کہہ کر مردوں کو زندہ کردیا تھا اور بھی جو کچھ تم کہتے ہو ہمیں سب معلوم ہے لیکن پھر پوچھتے ہیں یہ سب کام انبیاء کرام (علیہ السلام) کے وقت میں ہی ہوئے تھے یا آج بھی ان کی دلیل موجود ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کے لائے ہوئے نشانات اس وقت بھی موجود تھے آج بھی ہیں اور رہتی دنیا تک موجود رہیں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو بلایا وہ میدان میں اترا جو کچھ اس سے بن پڑا وہ سب لوگوں کے سامنے لے کر حاضر ہوگیا۔ پھر میدان میں لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ دیکھنے والے لوگ بھی ڈرے اور موسیٰ (علیہ السلام) بھی خوف کھا گئے پھر حکم الٰہی نازل ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ڈرو نہیں تم بھی اپنی دلیل پھینک کر دیکھو موسیٰ (علیہ السلام) نے بحکم الٰہی اپنی دلیل پھینک دی جو فرعون اور فرعون والوں کی ساری دلیلوں کو چٹ کرگئی ۔ ذرا غور کرو یہ لاٹھی کتنی دیر سانپ رہی۔ ایک منٹ یا دس۔ آدھا گھنٹہ یا پورا گھنٹہ۔ بالآخر موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ ہاتھ بڑھا اور آنکھ کھول کر دیکھ کے تیری لاٹھی تو لاٹھی ہی ہے وہ اژدھا کہاں گیا۔ اب یہ کیا ہے کہ ایک داستان ہی تو ہے کہ تم اس کو بیان کرتے کرتے تھکتے ہی نہیں۔ آؤ اب ہمارے پیغمبر کی پھینکی ہوئی لاٹھی بھی دیکھو اور اس کا بنا ہوا اژدھا بھی۔ ” اور دیکھو اگر تم کو اس کلام کی سچائی میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا۔ تو تم اس کی سی ایک سورة بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن جن کو تم نے اپنا حمایتی سمجھ رکھا ہے ان سب کو بھی اپنی مدد کے لئے بلا لاؤ ۔ “ اور اگر تم ایسا نہ کرسکو اور حقیقت بھی یہ ہے کہ تم ایسا کبھی نہ کرسکو گے تو اس آگ کے عذاب سے ڈرو جو لکڑی کی جگہ انسانوں اور پتھر سے سلگتی ہے اور منکرین حق کے لئے وہ تیار ہے۔ “ ایک جگہ ارشاد ہوا : ” اے پیغمبر اسلام ! یہودیوں سے کہہ دو کہ اگر تمہیں اس بات کا دعویٰ ہے کہ تمام بندوں میں سے صرف تم ہی اللہ کے ولی اور دوست ہو تو اس کی آزمائش یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں بصورت مباہلہ موت کی آرزو کرو اگر تم سچے ہو تو ضرور ایسا کرو گے۔ اے لوگو ! اچھی طرح سن لو کہ یہودی لوگ اللہ کی صداقت کا جھوٹا دَم بھر نے والے ہیں کبھی موت کی تمنا کرنے والے نہیں کیونکہ انہوں نے ایسے کام کئے ہیں جو انہیں موت کے تصور سے ڈراتے ہیں۔ “ اس طرح کے بیسیوں چیلنج قرآن کریم کے صفحات میں موجود ہیں جو غیر مسلم قوموں کو اس وقت دیئے گئے جب نبی رحمت ﷺ دنیا میں تشریف فرما تھے لیکن آپ کے اٹھا لئے جانے کے بعد بھی چیلنج بد ستور قائم رہے اور آج بھی قائم ہیں اور رہتی دنیا تک قائم رہیں گے گویا یہ لاٹھی ایک دو گھنٹہ کے لئے سانپ نہ بنائی گئی بلکہ یہ ایسا اژدھا بنا دیا گیا جس نے قوموں کی قومیں کھالیں اور رہتی دنیا تک کھاتا رہے گا جو سامنے آیا وہ ہضم ہوگیا جو سامنے آئے گا ان شاء اللہ یقیناً کھایا جائے گا۔ اس کی دونوں حیثیات بیک وقت قائم رہیں اور آج بھی قائم ہیں جس نے رسول اللہ ﷺ اور رسولوں کے ماننے والوں کے لئے لاٹھی کا کام دیا اور دے رہا ہے اور دیتا رہے گا اور مخالفین کے لئے اژدھا تھا ، ہے اور رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔ موت کی تمنا کی دو ہی صورتیں اسلام میں جائز رکھی گئی ہیں اسلام نے ان دونوں ہی صورتوں میں غیر مسلموں کو چیلنج دیا تھا اور دونوں ہی صورتوں میں اسلام کا پلہ بھاری رہا اور ان شاء اللہ بھاری رہے گا ۔ ایک صورت اسلام کی صداقت کے دلائل پیش کرنے کی ہے کہ ان لوگوں کو عقل و فکر کے ساتھ اسلام کی صداقت کے دلائل پیش کرو لیکن یہ لوگ ماننے والے نہیں۔ جب دلائل کو تسلیم ہی نہ کریں اور دلائل کا جواب دلائل کے ساتھ پیش بھی نہ کریں بلکہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ ڈٹے بھی رہیں ، دُم دبائیں اور دانت پیسیں یا دانت دکھائیں تو دنیا کو سچائی دکھانے کے لئے ان کو مباہلہ کی دعوت دو اور یاد رکھو کہ یہ کبھی تمہاری اس دعوت کو قبول نہیں کریں گے۔ اگر قبول کرلیا تو گویا انہوں نے موت کو ماسی کہہ دیا۔ اب فکر نہ کرو یہ ایسے گڑھے میں گریں گے کہ دوبارہ کبھی نکل ہی نہ سکیں گے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دلائل کا دلائل سے جواب بھی نہ دیں اور شرارتوں سے باز بھی نہ آئیں تو ان کو جہاد کی دعوت دے دو اور اعلان جنگ کر دو ۔ اب دو ہی صورتیں ظاہر ہوں گی یا مقابلہ نہیں کریں گے اور بھاگ جائیں گے اور اگر مقابلہ کے لئے ذرا بھی کھڑے ہوئے تو ان کو تمہارے ہاتھوں وہ عذاب دیا جائے گا کہ ان کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا۔ اور یہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔
Top