Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 20
یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ
يُسَبِّحُوْنَ : وہ تسبیح کرتے ہیں الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن لَايَفْتُرُوْنَ : وہ سستی نہیں کرتے
وہ رات دن اس کی پاکیزگی کے ترانوں کے تسبیح خواں ہیں ، وہ کبھی تھمتے نہیں
فرشتوں کی صفات کا مزید بیان بڑھایا جا رہا ہے تاکہ وہ ان کی اصلیت سمجھ جائیں : 20۔ اس سے قبل انسانوں کو ان کی زندگی کا اصل مقصد بھی سمجھایا گیا تھا کہ تمہاری پیدائش کا حاصل اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے لیکن تم نے اس کو یکسر بھلادیا پھر عبادت کا طریقہ اور عبادت کے اوقات کا بیان بھی ذکر کیا گیا جیسا کہ پیچھے آپ پڑھ آئے ہیں جو سورة طہ کی آخری آیات میں بیان ہوا تھا ، اب ان لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ تمہاری عبادت کے عوض تم کو انعام دینے کا اعلان بھی ہم نے کیا اور تمہاری آخرت کو سنوار دینا بھی لازم ٹھہرایا لیکن تم نے اس کی ذرا پروانہ کی اور جو قدم اٹھایا اللہ تعالیٰ کے لائے ہوئے پروگرام کے خلاف ہی اٹھایا اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ اس کی مخلوقات میں سے ملائکہ ایسی مخلوق ہیں کہ ان کو جہاں جس کام اور جس خدمت پر لگایا گیا ہے وہ اپنا کام کئے جا رہے ہیں اور وہ عبادت سے نہ تھکتے ہیں نہ اکتاتے ہیں بلکہ ہر وقت اور ہر آن وہ اپنے ذمہ لگائی گئی ذمہ داری کو پوری ذمہ داری سے نبا ہے چلے جا رہے ہیں اور ہم انسانوں کے لئے وہ راہنمائی کا کام دیتے ہیں اگر تم بھی راہنمائی حاصل کرنا چاہو۔ (یستحسرون) کی اصل ” حسر “ اور ” حسر “ کے معنی اس طرح سمجھے جاسکتے ہیں کہ جس چیز پر کوئی دوسری چیز اڑھائی گئی ہو اس اڑھائی گئی چیز کو اس سے اتار دینا یعنی ننگا کردینا اور حاسر حسیر یامحسور تھکے ماندہ کو کہتے ہیں کیونکہ اس کی قوتوں سے گویا پردہ اٹھ جاتا ہے اور وہ ظاہر ہوجاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ حسرت ‘ غم اور ندامت کے اظہار کا نام ہے اور ” یستحسرون “ کے معنی ہوئے تھکے ہارے ہوئے جو آگے قدم اٹھانے سے مایوس ہوں (آیت) ” لا یستحسرون “ وہ کبھی تھکتے ‘ ہارتے نہیں اور نہ ہی وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کا کوئی وقت ضائع ہوا یہ پچھلی آیت کا بیان تھا اور زیر نظر آیت میں (آیت) ” لا یفترون “ کہہ کر اس کی مزید وضاحت فرما دی کیونکہ (فتر) کے معنی ٹھہر جانے اور رک جانے کے ہیں اس لئے اس کی نفی فرما دی کہ عبادت میں ان کو اس قدر خوشی حاصل ہوتی ہے کہ وہ ٹھہرتے نہیں اور اس سے رکھتے نہیں کیونکہ نہ تو وہ عبادت الہی سے تھکتے اور نہ ہی کبھی رکتے ہیں پیہم عبادت میں لگے رہتے ہیں ۔ حالانکہ یہ کام انسانوں کے کرنے کا تھا کہ وہ ہر آن اللہ تعالیٰ کی عبادت کو اولیت دین اور ان کا کھانا ‘ رہنا سہنا اوڑھنا بچھونا اور دوسرے کاموں میں مشغول ہونا حکم الہی کے مطابق ہو تو وہ عین عبادت ہے بلکہ یہ وقتی عبادت اس کی فرع ہو کر رہ جاتی ہے اور فروع حسن وزینت کو دوبالا کرتی ہیں اور اتنا انہی کے انحصار پر دیکھنے کے قابل ہوتا ہے لیکن افسوس کہ اس بات کو بہت کم سمجھا گیا اور ہم فروعات ہی میں پھنس کر رہ گئے کہ یہ الگ الگ کیوں ہیں جبکہ ان کا الگ الگ ہونا ہی خوبصورتی اور زینت اسلامی کا باعث تھا جبکہ خالی تنے کو ہماری اپنی زبان میں ” ٹنڈ “ بولتے ہیں اور ’ ٹنڈ منڈ “ ہونا خوبی نہیں بلکہ ایک بہت بڑا نقص ہے کاش کہ اس حقیقت کو مسلمان سمجھ جائے ممکن ہے کہ قارئین یہ کہہ دی کہ اس تفسیر میں ” کاش کہ “ کے سوا ہے ہی کیا کہ جو ہم اچھا سمجھ کر کر رہے ہیں اس پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ اگر ایسی بات ہے تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ ہماری اس ” آہ “ کو بھی برداشت نہیں کرتے اور ہم ہیں کہ ان کے قتل کرنے کو بھی قبول کئے بیٹھے ہیں۔ ع ہم کرتے ہیں آہ تو ہوتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا :
Top