Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 28
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا یَشْفَعُوْنَ١ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَ هُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ
يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھوں میں (سامنے) وَ : اور مَا خَلْفَهُمْ : جو ان کے پیچھے وَ : اور لَا يَشْفَعُوْنَ : وہ سفارش نہیں کرتے اِلَّا : مگر لِمَنِ : جس کے لیے ارْتَضٰى : اس کی رضا ہو وَهُمْ : اور وہ مِّنْ خَشْيَتِهٖ : اس کے خوف سے مُشْفِقُوْنَ : ڈرتے رہتے ہیں
جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ پیچھے ہے سب اللہ جانتا ہے ، ان کی مجال نہیں کہ کسی کو اپنی سفارش سے بخشوا لیں مگر ہاں جس کسی کی بخشش اللہ پسند فرمائے اور وہ تو اس کی ہیبت سے خود ہی ڈرتے رہتے ہیں
انبیاء ورسل کے آگے اور پیچھے سے اللہ تعالیٰ واقف ہے اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں : 28۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ ان آیات سے زیادہ تر فرشتوں ہی سے خطاب سمجھا گیا ہے تاہم بعض مفسرین نے آیت 26 سے ہی بیان انبیاء کرام (علیہ السلام) اور رسل عظام بھی سمجھا اور بیان کیا ۔ اس لئے ہم نے عرض کیا تھا کہ پیچھے سے بیان فرشتوں کا شروع ہوا پھر انبیاء کرام (علیہ السلام) کا جیسا کہ آیت 19 سے آیت 25 تک ہے اس لئے آیت 27 تک تو یقینا دونوں احتمال ہو سکتے ہیں اور دونوں کا ذکر بھی اوپر نیچے آیا ہے لیکن آیت 28 ‘ 29 میں اس لئے اس مضمون کو انبیاء کرام (علیہ السلام) کے متعلق ہی سمجھنا ضروری ہے کہ ان دونوں آیتوں میں جن کا بیان ہے وہ بالارادہ یا بہ اختیار بھی کچھ کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں اور یہ انبیاء کرام اور رسل عظام ہی کا منصب ہے ملائکہ ارادہ واختیار نہیں رکھتے اور ان کے مقابلہ میں انبیاء ورسل ارادہ واختیار رکھنے کے باوجود معصوم اور گناہوں سے پاک ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام اور رسل عظام کا درجہ ملائکہ سے بہت اوپر ہے لیکن جنس کا خاصہ چونکہ جنس سے الگ نہیں کیا جاسکتا اس لئے انبیاء ورسل کو نسیان وبھول لگ سکتی ہے لیکن ملائکہ کو وہ کبھی نہیں سکتی اور تفاوت جنس کے اعتبار سے ہے ۔ بہرحال اس جگہ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ اسلام سے پہلے نبوت و رسالت اور پیغمبری کی کوئی خاص واضح اور غیر مشتبہ حقیقت دنیا کے سامنے مطلق نہیں تھی ، یہود کے ہاں نبوت کے معنی صرف پیشین گوئی کے تھے اور جس کے متعلق وہ یقین رکھتے تھے کہ اس کی دعا یا بددعا فورا قبول ہوجاتی ہے (تورات صحیفہ تکوین باب 20 : 7) اس لئے وہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) ‘ سیدنا لوط (علیہ السلام) ‘ سیدنا اسحاق (علیہ السلام) ‘ سیدنا یعقوب (علیہ السلام) اور سیدنا یوسف (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کا محض دھندلا سا خاکہ ان کے ہاں موجود ہے بلکہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے مقابلہ میں شام کے کاہن مالک کی پیغمبرانہ شان ان کے نزدیک زیادہ نمایاں معلوم ہوتی ہے (تکوین 14 : 18) سیدنا داؤد (علیہ السلام) اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی حیثیت یہود کے ہاں فقط بادشاہ کی ہے اور ان کے زمانہ کی پیشین گوئی کونے والے پیغمبر اور ہیں یہی وجہ ہے کہ یہود کے قصوں اور کتابوں میں اسرائیلی پیغمبروں کی طرف نہایت نحیف وکمزور باتیں بےتامل منسوب کی گئی ہیں اور انہوں نے ہمارے ہاں بھی بدقسمتی کے ساتھ قدرے مواد لایا گیا ہے جس کی تردید ہم شروع تفسیر سے جگہ جگہ کرتے آرہے ہیں ۔ اسی طرح عیسائیوں کے ہاں بھی نبوت و رسالت کی کوئی واضح حقیقت نہیں ہے ورنہ یہ نہ کہا جاتا کہ مجھ سے پہلے جو آئے وہ چور اور ڈاکو تھے موجودہ انجیلوں میں نہ خدا کے رسولوں کی تعریف ہے اور نہ ہی ان کے تذکرے ہیں ‘ نہ ان کی سچائی اور صداقت کی کوئی گواہی ہے ۔ سیدنا زکریا (علیہ السلام) ‘ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) جن کے تذکرے انجیل میں ملتے ہیں وہ بھی پیغمبرانہ شان کے ساتھ ان کے ہاں مسلم نہیں لیکن محمد رسول اللہ ﷺ نے آ کر اس جلیل القدر منصب کی حقیقت ظاہر کی ‘ اس کے فرائض بتائے ‘ اس کی خصوصیات کا اظہار کیا اور ان سب پر ایمان لانے کو نجات کا ضروری ذریعہ قرار دیا ۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ نبوت و رسالت خاص خاص انسانوں کو خدا کو بخشا ہوا ایک منصب ہے جس کو دے کر وہ دنیا میں اس غرض سے بھیجے گئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام لوگوں کو بتائیں اور سچائی اور نیکی کا راستہ ان کو دکھائیں وہ ہادی ‘ نذیر ‘ داعی ‘ مبشر ‘ معلم ومبلغ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا داروں کی طرف بھیجی گئی روشنی تھے ، اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوتا تھا ‘ اپنی باتوں سے ان کو مطلع کرتا تھا اور وہ ان سے دوسرے انسانوں کو آگاہ کرتے تھے ، وہ گناہوں سے پاک اور برائیوں سے بالکل محفوظ تھے ، وہ اللہ تعالیٰ کے نیک اور مقبول بندے تھے اور اپنے اپنے عہد کے سب سے بہتر انسان تھے ، ان کے سب کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے تھے اور خدا ان کے ساتھ تھا یعنی اس کے فرشتے ان کے آگے پیچھے رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے سوا وہ نہ چلتے تھے ‘ نہ کھاتے پیتے تھے ‘ نہ اٹھتے بیٹھتے تھے اور نہ ہی کوئی کام کرتے تھے ، مطلب یہ ہے کہ ان کی ہر حرکت رضائے الہی کے مطابق ہوتی تھی کوئی کام وہ اپنی مرضی سے نہیں کرتے تھے ، اگر نسیان وبھول سے کوئی چیز سرزد ہوجائے تو وہ فورا اس سے واپس لوٹ کر اللہ تعالیٰ کی بخشش طلب کرتے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی وہ بھول اور خطا اس وقت محو کردی جاتی تھی ، زیر نظر آیت میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ” جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ وہ پیچھے چھوڑ آئے سب اللہ جانتا ہے ، اس کی مجال نہیں کہ وہ کسی کو اپنی سفارش سے بخشوا لیں مگر ہاں ! جس کسی کی بخشش اللہ تعالیٰ پسند فرمائے (اور ان کو اس کی سفارش کی اجازت عطا فرمائے اور وہ سفارش کریں) اور وہ تو اللہ تعالیٰ کی ہیبت سے ہر وقت خود ہی ڈرتے رہتے ہیں ۔ “ یہ ہستیاں اپنے فرائض کو انجام دینے کے لئے ہر قوم میں پیدا ہوئیں ‘ جنہوں نے ان کو مانا نجات پائی اور جنہوں نے ان کو جھٹلایا وہ ہلاک وبرباد ہوئے ۔ قرآن کریم نے ان کی زندگی کے سوانح ‘ ان کی تبلیغ کی روداد ‘ ان کے اخلاق کی بلند مثالیں اور انکی خدا پرستی کا اخلاص اس طرح بیان کیا ہے کہ ان کے پڑھنے اور سننے سے ان کی پیروی کا جذبہ ان کے اتباع کا شوق اور ان کی صداقت کا یقین دلوں میں پیدا ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی اس نے شان نبوت کے خلاف جو غلط باتیں دوسرے صحیفوں میں بیان کی گئی تھیں انکو مطلق چھوڑ کر ان کی تردید کردی ہے اور اس طرح تردید کا ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ جس سے کسی کے دل کو چبھن بھی پیدا نہیں ہوتی لیکن افسوس کہ ہمارے مفسرین نے انکی صحیح ترجمانی نہیں کی یا بہت کم کی ہے ، بہرحال نبوت و رسالت کی سب سے اہم خصوصیت جو اسلام نے قرار دی ہے وہ یہ ہے کہ نبی ورسول گناہوں سے پاک اور برائیوں سے محفوظ اور معصوم ہوتے تھے اور اس کی رضا کے خلاف وہ کوئی حرکت نہیں کرتے تھے حتی کہ اس کا بولنا بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی ورضا سے تھا۔
Top