Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 56
قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الَّذِیْ فَطَرَهُنَّ١ۖ٘ وَ اَنَا عَلٰى ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ رَّبُّكُمْ : تمہارا رب رَبُّ : رب (مالک) السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین الَّذِيْ : وہ جس نے فَطَرَهُنَّ : انہیں پیدا کیا ڮ وَاَنَا : اور میں عَلٰي ذٰلِكُمْ : اس بات پر مِّنَ : سے الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا ، نہیں میں کہتا ہوں آسمان اور زمین کا پروردگار جس نے ان سب کو پیدا کیا وہی تمہارا بھی پروردگار ہے ، میں اس حقیقت پر تمہارے آگے گواہ ہوں ؟
ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی مزید ایک قدم آگے بڑھایا اور ان کو جواب دیا : 56۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کا یہ کلام سنا جو بہت مصلحت پسندانہ تھا تو آپ ﷺ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے اور ان کی اس مصلحت کو نظر انداز کرتے ہوئے فرمایا کہ میں مذاق کیوں کروں گا ‘ یہ مذاق ہرگز نہیں ” بلکہ میں تو صاف کہتا ہوں کہ آسمان و زمین کا پروردگار جس نے ان سب کو پیدا کیا وہی تمہارا بھی پروردگار ہے اور میں اس حقیقت پر تمہارے سامنے گواہ ہوں ؟ “ کس قدر صاف اور واضح الفاظ میں بغیر کسی تعریض کے اعلان کردیا کہ میں اس بات کی شہادت دے رہا ہوں اور بآواز بلند اور پکار پکار کر کہہ رہا ہوں کہ جن کو تم نے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ رکھا ہے یہ سب اپنی مشکلات کو بھی حل نہیں کرسکتے ‘ اس لئے کہ یہ سب مخلوق ہیں اور ان سب کا خالق وہی ہے جس نے تم کو اور مجھ کو پیدا کیا ہے ۔ اس فقرہ نے مزید اس بات کی وضاحت بھی کردی کہ ابراہیم (علیہ السلام) ان بتوں کی بات نہیں کر رہے بلکہ ان کی بات کر رہے ہیں جن کے ان لوگوں نے بت بنا رکھے تھے اور وہ اللہ کے نیک بندے ہی تھے جن کی وفات کے بعد ان لوگوں نے بت تراش لئے تھے جس طرح آج بہت سے مسلمان اپنے تسلیم شدہ بزرگوں کے مقبرے اور روضے تعمیر کرلیتے ہیں جو گزشتہ مشرکین سے زیادہ شرک کے باعث بنتے ہیں اور اسلامی حکومت پر لازم آتا ہے کہ وہ ان سب کو مسمار کر کے زمین بوس کر دے اور ان کا نام ونشان تک اس طرح مٹا دے کہ گویا یہاں کچھ تھا ہی نہیں ۔
Top