Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 57
وَ تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ
وَتَاللّٰهِ : اور اللہ کی قسم لَاَكِيْدَنَّ : البتہ میں ضرور چال چلوں گا اَصْنَامَكُمْ : تمہارے بت (جمع) بَعْدَ : بعد اَنْ : کہ تُوَلُّوْا : تم جاؤگے مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
اور بخدا میں ضرور تمہارے ان بتوں کے ساتھ ایک چال چلوں گا جب تم سب پیٹھ پھیر کر چل دو گے
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے سوال کا جواب دینے کے بعد ان کو دھمکی بھی سنا دی : 57۔ توحید کے اس جوش نے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو فقط ان کا جواب دینے پر بس نہیں کرنے دی اور مزید آگے بڑھ کر ان کو ایک دھمکی بھی سنا دینے پر مجبور کیا اور آپ (علیہ السلام) نے قسمیہ انداز میں ارشاد فرمایا کہ تم لوگ کس مصلحت کی باتیں کرتے ہو جہاں کوئی مصلحت وغیرہ نہیں ہے میں تو اس معاملہ میں بالکل تیار کھڑا ہوں کہ تم لوگ یہاں سے ہٹو تو میں ان کے ساتھ دو دو ہاتھ کروں اور تمہارے واپس آنے تک ان کا صفایا کیا جا چکا ہو آیت میں آپ نے جو خفیہ تدبیر کرنے کا ارشاد فرمایا تو وہ اس لئے کہ آپ کی سکیم فی الواقعہ یہی تھی کہ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں لیکن ایسے وقت میں جب تسلی یہ کام اپنی تکمیل کو پہنچایا جاسکے ایسا نہ ہو کہ کچھ ہو بھی نہیں اور ایک شور بھی بپا ہوجائے ‘ نہیں بلکہ شور بپا ہو تو اس وقت ہو جس وقت جو کچھ بھی کرنا چاہتا ہو اس کی تکمیل ہوجائے اس لئے کہ نام پیدا کرنا مقصود نہیں بلکہ ایک کام کرنا مقصود ہے بس وہ کام ہوجائے پھر جو ہو سو ہو اس کی پرواہ نہیں ۔ ” جب تم پیٹھ پھیر کر چل دو “ کے الفاظ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ اعلان کسی بھری مجلس میں کیا ہے اور وہ مجلس یقینا اس معبد کے اندر ہے جس کے بعد ان لوگوں کو یہاں سے نکل کر اپنے گھروں کی طرف جانا لازم آتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے جو کچھ کرنے کا ارادہ کیا تھا اس کی تکمیل کے لئے وہ بےچین تھے اور اس قدر بےچین تھے کہ جس طرح کی حالت میں انسان کچھ نہ بتانے کے باوجود سب کچھ بتلا دیا کرتا ہے ۔
Top