Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 64
فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ
فَرَجَعُوْٓا : پس وہ لوٹے (سوچ میں پڑھ گئے) اِلٰٓى : طرف۔ میں اَنْفُسِهِمْ : اپنے دل فَقَالُوْٓا : پھر انہوں نے کہا اِنَّكُمْ : بیشک تم اَنْتُمُ : تم ہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
تب وہ آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے ، انہوں نے کہا اس میں شک نہیں ناانصافی کی بات تو تم سے ہو گئی
وہ لوگ ابراہیم کی بات سن کر اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور اپنے ظلم کو پہچان گئے : 64۔ بات کسی قدر واضح اور صاف ہوگئی کہ اس وقت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے مخالفین ومعاندین نے جب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی بات کو سنا تو وہ چونک گئے اور ان کی ضمیر نے ان کو وہ لعن طن کیا کہ وہ سرنگوں ہوگئے اور عقل کی جوتی نے ان کو خوب سر کو ٹے یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم لوگ تو اس نوجوان کو ظالم کہتے ہو لیکن اس نے تو ثابت کردیا کہ ظالم وہ نہیں بلکہ ظالم تم ہی ہو کہ ایسی چیزوں کو معبود ‘ حاجت روا اور مشکل کشا بنائے بیٹھے ہو جو یہ صلاحیت بھی نہیں رکھتیں کہ خود اپنی ذات پر آئی مصیبت کو بھی دور کرسکیں یا کسی دوسرے سے بیان کرسکیں ۔ غور کیجئے کہ جو بات ہمارے مفسرین کو سوجھی اس کا کہیں شائبہ بھی ان کے دل میں پیدا ہوا ؟ کیا ان کے ذہن میں کہیں یہ سوال پیدا ہوا کہ ابراہیم نے ہم سے جھوٹ بولا ؟ کیا ان کی کسی بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ سمجھا ہو کہ یہ جو کچھ ہمارے معبودوں کے ساتھ ہوا یہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے نہیں کیا اور یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ یہ سب کچھ کون کر گیا ؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ تو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے مجلس میں آنے سے بھی پہلے سمجھ گئے تھے کہ یہ اس نوجوان کا کام ہے انہوں نے مجلس میں تو محض آپ کو سزا دینے کے لئے طلب کیا تھا اور چاہا تھا کہ اس فعل پر اس کو نادم بھی کریں گے اور قرار واقعی سزا بھی دیں گے تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرسکے لیکن انہوں نے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے بات کر کے اور یہ اچھی طرح یقین کرلینے کے بعد بھی کہ یہ جو کچھ کیا ہے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) ہی نے کیا اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے واضح اقرار کرنے کے باوجود یہ جرات نہ کی کہ وہ ابراہیم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات ہی کرسکیں اور ان کی سیاست اور مذہبی رہنمائی کا سارا نشہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک بات سے کافور ہوگیا ۔ یہ تو ہمارے مفسریں کا حوصلہ ہے کہ ان کو وہ بات سوجھی کہ انہوں نے اصل موضوع کو چھوڑ کر ایک ایسا غیر متعلق موضوع کھڑا کرلیا جس کے کھڑا ہونے کی کوئی گنجائش اس وقت موجود ہی نہ تھی اور حدیث میں جس بات کی تردید کی گئی تھی انہوں نے اس سے اثبات نکال کر ایک نئی بحث شروع کردی اور یہ بحث کرتے کرتے اتنے دور نکل گئے کہ جس چیز کو بچانے کے لئے انہوں نے قلم اٹھایا تھا اس چیز کے اس طرح پرخچے اڑا دیئے جس طرح سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت ان معبودان باطل کے اڑائے تھے ، آپ غصے میں تو آرہے ہوں گے کہ میں نے کیا کہہ دیا لیکن ذرا غور کریں کہ مفسر رقم طراز ہیں : ” ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کرکے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری ومسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے اور دوسرا گروہ اس ایک روایت کو لے کر پورے ذخیرہ حدیث پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری روایات ناقابل اعتماد ہوں اور نہ فن حدیث کے نقطہ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کرکے صحیح مان لیا جائے سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ایسے ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہوجاتا ہے اور ایسے مضامین پر وہ مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی کریم ﷺ کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں ۔ “ (تفہیم القرآن جلد سوم ص 167) اگر یہ بات فی الواقعہ ایسی ہی ہے جیسا کہ مولانا مودودی (رح) فرما رہے ہیں تو یہ حدیث کے پرخچے اڑانا نہیں تو اور کیا ہے ؟ اس میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی ” متن “ کا مفہوم غلط سمجھ لینا اور کسی ” متن کا قابل اعتراض درج ہوجانا “ دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے جہاں تک متن کا مفہوم غلط سمجھ لینے کا تعلق ہے وہ بلاشبہ ہوا ہے حدیث کے ساتھ بھی اور قرآن کریم کے متن کے ساتھ بھی لیکن جہاں تک متن کا قابل اعتراض درج ہوجانے کا وہ ایسا تصور بھی نہیں کرسکتا ، بلاشبہ احادیث کی حیثیت اسلام میں ثانوی ہے لیکن محدثین عظام نے اس میں اس قدر احتیاط سے کام لیا ہے کہ انہوں نے کھرا کھوٹا الگ کردیا ہے ۔ رہی یہ بات کہ متن کے مفہوم سمجھنے میں غلطی لگنا تو وہ بیسیوں جگہ موجود ہے اس لئے ہمارے نزدیک بلاشبہ حدیث کا متن اپنی جگہ محفوظ ہے لیکن اس کا مطلب سمجھنے میں بہرحال ایسی غلطی لگی ہے کہ جس چیز کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے تردید فرمائی ہے اس کو اثبات سمجھ لیا گیا ہے اور اس طرح کی غلطی اور بھی بیشمار جگہوں پر ہوئی ہے اور اہل اللہ کا حق ہے کہ وہ کتاب وسنت کی روشنی میں ان مقامات کی نشاندہی کرتے جائیں اور اگر کوئی صاحب علم اور صاحب فن اس سلسلہ میں قلم اٹھائے تو اس کے لئے بہت کھلا میدان موجود ہے اور کرنے کا بہت کام باقی ہے اور ظاہر ہے کہ جتنا کسی کا حصہ ہوگا اللہ اس کو اتنی توفیق بھی عطا فرما دے گا ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اسباب فراہم فرما دے اور اہل علم اس طرف متوجہ ہوں تاکہ اس پرفتن زمانہ میں وہ دین کی یہ خدمت سرانجام دے سکیں اور خصوصا اہلحدیث پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ تقلید وجمود سے نکل کر اپنے منصب کی حفاظت میں قلم اٹھائیں ۔
Top