Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 93
وَ تَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ١ؕ كُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ۠   ۧ
وَتَقَطَّعُوْٓا : اور ٹکڑے ٹکڑے کرلیا انہوں نے اَمْرَهُمْ : اپنا کام (دین) بَيْنَهُمْ : باہم كُلٌّ : سب اِلَيْنَا : ہماری طرف رٰجِعُوْنَ : رجوع کرنے والے
مگر لوگوں نے آپس میں اختلاف کر کے اپنے دین کے ٹکڑے کر ڈالے ، سب کو ہماری طرف لوٹنا ہے
افسوس ! لوگوں نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے آخر سب کو لوٹ کر ایک ہی طرف جانا ہے : 93۔ غور کرو کہ سیدنا نوح (علیہ السلام) سے لے کر محمد رسول اللہ ﷺ تک قرآن کریم نے بیسیوں دعوتوں کا نام بہ نام ذکر کیا اور ان سب دعوتوں کو ایک ایک کرکے دیکھتے جاؤ اور بتاؤ کہ یہ سب توحید اور عقیدہ آخرت کی تعلیم دیتے رہے ہیں یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ ہر ایک نے یہی دعوت دی تو اس پر قیاس کرلو باقی رسولوں اور نبیوں نے بھی یقینا یہی دعوت دی خواہ وہ دنیا کے کسی خطہ میں پیدا ہوئے اور دنیا کی کسی قوم نے ان کو مانا اور یہ بھی کہ جن کی تعلیم نہ ہوگی یقینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول و نبی نہیں ہوں گے ۔ اس سے لامحالہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ نوع انسانی کا اصل دین یہی اسلام ہے اور دوسرے تمام مذاہب جو آج پائے جاتے ہیں وہ اس کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں جو اس کی بعض صداقتوں کو مسخ کر کے اور اس کے اندر بعض من گھڑت باتوں کا اضافہ کر کے بنائی گئی ہیں ، ظاہر ہے کہ اب اگر غلطی پر ہیں تو وہ لوگ ہیں جو ان مذاہب کے گرویدہ ہو رہے ہیں نہ وہ جو ان کو چھوڑ کر اصل دین کی طرف بلا رہا ہے لیکن بلاشبہ وہ لوگ جو اس کی تعلیم کے ساتھ وابستہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں ان میں بھی کمزوری بدرجہ اتم موجود ہے اور وہ سب مل کر ایک امت بننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ ساری قوموں کے لوگوں کا اس دنیا میں آنے کا طریقہ صرف اور صرف ایک ہے اور یہاں سے جانے کا طریقہ بھی بلاشبہ ایک ہی جیسا ہے اور پھر مر کر جہاں پہنچنا ہے وہ بھی سب کے لئے علیین وسجین کا مقام ایک ہی ہے اس لئے جہاں جہاں اور جو جو اختلاف پایا جاتا ہے سب لوگوں کا اپنا بنایا ہوا ہے دین اسلام نے جو طریقہ اپنایا ہے وہی اصل ہے جو شروع سے آسمانی ادیان میں چلا آرہا ہے اور یہی بات دوسری جگہ اس طرح ارشاد فرمائی کہ : ” اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں ‘ پس مجھ ہی سے تم ڈرو۔ مگر بعد میں لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا ۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اس میں وہ مگن ہے اچھا تو چھوڑا نہیں یہ ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ایک وقت خاص تک “ (المومنون 23 : 52 تا 54)
Top