Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 13
یَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّهٗۤ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِهٖ١ؕ لَبِئْسَ الْمَوْلٰى وَ لَبِئْسَ الْعَشِیْرُ
يَدْعُوْا : وہ پکارتا ہے لَمَنْ : اس کو جو ضَرُّهٗٓ : اس کا ضرر اَقْرَبُ : زیادہ قریب مِنْ نَّفْعِهٖ : اس کے نفع سے لَبِئْسَ : بیشک برا الْمَوْلٰى : دوست وَلَبِئْسَ : اور بیشک برا الْعَشِيْرُ : رفیق
وہ اس کو پکارتے ہیں جس کے نفع سے زیادہ ان کا نقصان قریب ہے سو کیا ہی برا کارساز ہوا اور کیا ہی برا ساتھی
جس کا ضرر اس کے نفع سے زیادہ قریب ہوگیا وہ بھی اچھا ساتھی ہوگا : 13۔ گزشتہ آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا نہ کوئی حقیقی ‘ ’ نافع “ ہے اور نہ حقیقی ” ضار “ اور جو شخص کسی کو اللہ تعالیٰ کے سوا نافع یا ضار سمجھے وہ شرک کا مرتکب ہوا اور زیر نظر آیت میں بیان ہوا کہ جو شخص اسے پکارتا ہے جس کا نقصان اس کے نفع سے قریب تر ہے تو اس طرح گویا دونوں آیتوں میں تضاد ہوگیا ؟ کیونکہ اس آیت میں نفع وضرر کو تسلیم کرلیا گیا ؟ سمجھ لینا چاہئے کہ حقیقت میں ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں اور بلاشبہ کوئی شخص بھی اللہ تعالیٰ کے سوا نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان گویا نہ وہ کسی کا کچھ بنا سکتا ہے اور نہ ہی بگاڑ سکتا ہے ۔ اور یہ وہ نفع ونقصان ہے جس کے لئے اس نے غیر اللہ کو نافع یا ضار سمجھ کر پکارا رہا اس پکارنے والے کافی نفسہ پکارنا تو وہ یقینا اس کے لئے گناہ کا باعث ہوا اور گناہ کا مآل اور نتیجہ ضرر اور نقصان ہی ہوگا اگر اس ضرر اور نقصان کو بھی نہ تسلیم کیا جائے تو اس کو غیر اللہ کو پکارنے کی ممانعت کیوں ہو ؟ اور اگر یہ جرم نہ ہوتا تو آخر اس سے روکنے کی ضرورت کیا تھی ؟ پھر یہ بھی کہ کوئی شخص جب بھی کسی غیر اللہ کو پکارے گا تو فرضی نفع ہی کے لئے پکارے گا اگرچہ جس کو پکارا گیا ہے وہ نفع نہیں پہنچا سکتا تو اس طرح اس کے فرضی نفع کی بجائے جو اس کو گناہ ہوا وہ اس پکارنے والے کو حاصل ہوگیا ‘ اس طرح اس کے فرضی نفع کی بجائے اس کا ضرر پکارنے والے کے زیادہ قریب ہوگیا اگر وہ اس کو نہ پکارتا تو یہ ضرر تو اس کو کم از کم نہ پہنچتا ۔ یہی وہ گناہ ہے جس کو بےلذت گناہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور یہی وہ بجائے نفع کے الٹا نقصان ہے جس کا ذکر اس جگہ کیا گیا ہے ۔ مثلا ” الف “ نے ” ب “ کو نفع حاصل کرنے کے لئے پکارا حالانکہ ” ب “ نفع وضرر کی قدرت نہیں رکھتا تھا اور اس طرح ” الف “ کو ” ب “ سے نفع تو حاصل نہ ہوسکا تاہم ” الف “ کا ایمان تو گیا اور ایمان چلے جانے کا ” الف “ کو کوئی نقصان پہنچایا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس سے بڑا نقصان اور کیا ہوگا ؟ کہ اس کا وہ فرضی نفع جو ” الف “ نے سمجھا تھا وہ تو حاصل نہ ہوا لیکن الٹا ” الف “ کا نقصان ہوگیا کہ وہ ایمان سے محروم ہوگیا ۔ یہی بات زیر نظر آیت میں بیان کی گئی ہے ذرا عقل پر زور دو گے تو بات انشاء اللہ ذہن میں بیٹھ جائے گی بشرطیکہ عقل سے کام لینا آپ روا رکھتے ہوں کیونکہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو دین کے معاملہ میں عقل سے کام لینا حرام سمجھتے ہیں اور ان سے تضاد کے متعلق بات کی جائے تو وہ ایک ہی رٹ لگاتے نظر آتے ہیں کہ دیکھو قرآن کریم میں اس طرح لکھا ہے کیا اللہ تعالیٰ کو بیان کرنا نہیں آتا تھا ؟ اور یہ بات وہ کبھی ماننے کے لئے تیار نہیں کہ مت ان کی ماری گئی ہے کیوں ؟ اس لئے کہ ان کو جہاں عقل وفکر سے کام لینا چاہئے تھا وہیں اس سے کام لینا حرام سمجھ لیا ہے ۔ فرمایا غور کرو کہ جس کو پکارنا نہیں چاہئے تھا اس کو پکارنے کی جس نے اس کو رغبت دلائی ‘ بات سمجھائی وہ کتنا ہی برا ساتھی نکلا کہ اس نے غیر اللہ کی پکار کروا کر بنائے گئے ساتھی کا ایمان ضائع کرا دیا یہ ساتھی خواہ وہ کون بھی تھا اسلام کی زبان میں شیطان ہی اس کو کہا جائے گا وہ مولوی کے روپ میں ہو یا پیرو مرشد کے روپ میں کیونکہ یہی وہ بہروپیا ہے جو طرح طرح کے روپ بدلتا رہتا ہے اس نے ہم نوالہ وہم پیالہ ہو کر وہ کام کیا جو بڑے سے بڑا دشمن بھی نہیں کرسکتا تھا ۔
Top