Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 15
مَنْ كَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهٗ مَا یَغِیْظُ
مَنْ : جو كَانَ يَظُنُّ : گمان کرتا ہے اَنْ : کہ لَّنْ يَّنْصُرَهُ : ہرگز اس کی مدد نہ کریگا اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت فَلْيَمْدُدْ : تو اسے چاہیے کہ تانے بِسَبَبٍ : ایک رسی اِلَى السَّمَآءِ : آسمان کی طرف ثُمَّ : پھر لْيَقْطَعْ : اسے کاٹ ڈالے فَلْيَنْظُرْ : پھر دیکھے هَلْ : کیا يُذْهِبَنَّ : دور کردیتی ہے كَيْدُهٗ : اس کی تدبیر مَا يَغِيْظُ : جو غصہ دلا رہی ہے
جو آدمی (مایوس ہو کر) ایسا خیال کر بیٹھتا ہے کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی مدد کرنے والا نہیں تو اسے چاہیے کہ کہ ایک رسی چھت تک لے جا کر باندھ دے اور پھر اس سے رشتہ کاٹ لے ، پھر دیکھے اس تدبیر نے اس کا غم و غصہ دور کردیا ہے یا نہیں ؟
کتنا برا گمان ہے اس شخص کا جس نے یہ سمجھا کہ اس کی مدد اللہ کبھی نہیں کرے گا : 15۔ (من ینصرہ) میں ضمیر ” ہ “ کا مرجع کیا ہے ؟ کہا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہیں اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس کا مرجع ” من “ ہے ۔ 1۔ جو شخص اپنی جگہ پر یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی مدد نہیں کرے گا ۔ 2۔ جو شخص اپنی جگہ پر یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی جس نے ایسا خیال کیا ہے کبھی مدد نہیں کرے گا اور ہمارے خیال میں یہی آخری مفہوم زیادہ واضح ہے کیونکہ جس نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیر اللہ کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارا ہے اس نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتا ورنہ وہ کبھی یہ حماقت نہ کرتا کہ ایک زور آور کو چھوڑ کر کسی کمزور وناتواں کی طرف توجہ کرتا۔ لیکن پہلا مطلب بھی مفسرین نے بیان کیا ہے اس لئے اس کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا جب کہ دونوں مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح اور حق ہیں ۔ ہاں ! بات پہلی سمجھی جائے یعنی اس ” ہ “ کی ضمیر سے مراد نبی اعظم وآخر ﷺ کو لیا جائے مطلب یہ ہوگا کہ ” جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی مدد نہیں کرے گا تو وہ چھت سے رسی باندھ کر خود کشی کرے ‘ وہ کسی ذریعہ سے آسمان پر چلا جائے گا اگر جاسکتا ہے اور وہاں جا کر اس کی مدد بند کرانے کی کوشش کرے ۔ وہ آسمان پر جا کر وحی کا سلسلہ منقطع کرا سکتا ہے تو کرا دے ، وہ آسمان پر جا کر اس کا رزق بند کرانے کی کوشش کرے اگر وہ کرسکتا ہے ۔ “ اور اگر بات دوسری ہے جیسا کہ ہم نے سمجھا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ” جس کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ اس گمان کرنے والے کی مدد نہ کرے گا وہ اپنے گھر کی چھت کے ساتھ رسی لٹکائے اور خود کشی کرلے اگر کرسکتا ہے ، وہ آسمان تک پہنچ کر وہاں سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کرے اگر وہ ایسا کرسکتا ہے ، اور حقیقت دونوں ہی جگہ یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے کرے اور جو کچھ کرسکتا ہے اور حقیقت دونوں ہی جگہ یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے کرے اور جو کچھ کرسکتا ہے کر دیکھے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے اس نظریہ میں کامیاب ہو سکے چاہے وہ جو راستہ اختیار کرے ہماری طرف سے آزاد ہے یہ گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے کئے گئے وعدہ کو مزید پکا کرنے کے لئے پیرایہ بیان اختیار کیا ہے کہ ہم جس کو نفع پہنچانا چاہیں کون ہے جو اس کو نہ پہنچنے دے یا جس کو ہمارے قانون کے مطابق کوئی ضرر پہنچنا لازم آچکا ہو کون ہے جو اس کے ضرر کو اس سے دور کر دے وہ گویا اس طرح کی کوئی بات سوچ کر اپنی زندگی سے ہاتھ تو دھو سکتا ہے لیکن اس نظریہ میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ زیر نظر آیت کی تفسیر میں اور بھی بہت سی باتین بیان کی گئی ہیں اور بعض قبائل کا نام لے کر بھی بات کی گئی ہے اور اس آیت کا شان نزول ایک سے زیادہ طریقہ سے بتایا گیا ہے لیکن جب قرآن کریم کا حکم عام ہے تو اس کو کسی کے ساتھ کرنے کی آخر ضرورت ؟ مزید وضاحت کے لئے سورة الانعام کی آیت 35 کی تفسیر دیکھیں جو تفسیر عروۃ الوثقی جلد سوم میں ملے گی ۔
Top