Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 35
الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ الصّٰبِرِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ وَ الْمُقِیْمِی الصَّلٰوةِ١ۙ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَا : جب ذُكِرَ اللّٰهُ : اللہ کا نام لیا جائے وَجِلَتْ : ڈر جاتے ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَالصّٰبِرِيْنَ : اور صبر کرنے والے عَلٰي : پر مَآ اَصَابَهُمْ : جو انہیں پہنچے وَالْمُقِيْمِي : اور قائم کرنے والے الصَّلٰوةِ : نماز وَمِمَّا : اور اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں
ان کو جن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل لرز اٹھتے ہیں جو ہر طرح کی مصیبتوں میں صبر کرنے والے ہیں جو نماز پڑھتے اور درستگی میں کوشاں رہتے ہیں جو اس رزق میں سے کہ اللہ نے دے رکھا ہے خرچ کرتے رہتے ہیں
اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور مصیبتوں میں صبر کرنے والے کون ہیں : 35۔ گذشتہ آیت میں کچھ لوگوں کا وصف (مخبتین) یعنی وہ لوگ جو متواضع اور منکر المزاج ہوں اور غرور وتکبر ان کے قریب بھی نہ پھٹکا ہو ان لوگوں کا مزید تعارف کرایا گیا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف صحیح معنوں میں سما گیا ہے اور جلال خداوندی کی شعاعیں ان کے دلوں پر پڑتی ہیں اور عظمت الہی کی تجلیات ان کے قلوب پر پڑتی ہیں اور وہ آخرت کی فکر رکھتے ہیں اور اس عارضی زندگی پر وہ کبھی نازاں نہیں ہوتے جو انعامات ان کو دنیا میں ملتے ہیں ان کا بارگاہ ایزدی میں شکریہ ادا کرتے ہیں اور اس راہ میں جو کچھ بھی ان کو پیش آئے اسے خوشی خوشی جھیلتے ہیں اور صبر کا مفہوم کئی بار عرض کیا جا چکا ہے کہ صبر وثبات سے احکام خداوندی پر عمل پیرا ہوجانا یہ ہے کہ اس دنیا کی کوئی آندھی ان کو گھبرا نہیں سکتی اور مخالفین کی ایذاؤں سے وہ کبھی نہیں گھبراتے اور یہ بھی کہ وہ نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور یہ بات بھی پیچھے عرض کی جا چکی ہے کہ نماز کے فقط پڑھنے اور نماز کے قائم کرنے میں بہت بڑا فرق ہے کہ نمازی صحیح معنوں میں نماز کو قائم کرتا ہے وہ کبھی برائی اور بےحیائی کے قریب بھی نہیں بھٹکتا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دیئے گئے پروگرام کے مطابق زندگی گزارنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اس دنیا میں رہتے ہوئے وہ کبھی دغا ‘ فریب ‘ دھوکا ‘ کم ماپنا ‘ کم تولنا ‘ جھوٹ بولنا ‘ غیبت کرنا اور اسی طرح کی دوسری برائیوں کے قریب بھی نہیں جاتا اور معاشرہ اسلامی کے لئے ہر حال میں کوشاں رہتا ہے اس کی زندگی میں کسی طرح کا کوئی الجھاؤ پیدا نہیں ہوتا کہ وہ دنیوی جھگڑوں ہی کا ہو کر رہ جائے یہاں تک کہ اس کو اگر ماحول زیادہ تنگ کرے تو سب کچھ چھوڑ کر اس ماحول سے بھاگ جاتا ہے اور وہاں رہنے کی کوشش کرتا ہے جہاں اس کو ایسے ماحول سے نجات مل جائے اور ان لوگوں کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ جو کچھ کماتے ہیں فقط اپنی ذات ہی کے لئے نہیں رکھتے اس میں دوسروں کا حق سمجھتے ہوئے ان کو ادا کرتے ہیں اور اگر حالت دوسری ہوجائے تو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے اپنے رب ذوالجلال والاکرام ہی سے طلب کرتے ہیں اور ہمیشہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور یقینا ان کی زندگی ہی میں وہ وقت بھی آتا ہے کہ ان کی حالت اللہ تعالیٰ بدل دیتا ہے اور وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں اور جو کچھ ان کو ملتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق خرچ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور ان طریقوں کی طرف سے وہ مکمل طور پر رک جاتے ہیں جہاں دوسروں کی رضا کے لئے خرچ کرنا ہوتا ہے گویا ان کی کمائی اور ان کا خرچ دونوں ہی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ہوتے ہیں دنیا کی واہ واہ کے لئے نہیں ۔
Top