Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 44
وَّ اَصْحٰبُ مَدْیَنَ١ۚ وَ كُذِّبَ مُوْسٰى فَاَمْلَیْتُ لِلْكٰفِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ١ۚ فَكَیْفَ كَانَ نَكِیْرِ
وَّ : اور اَصْحٰبُ مَدْيَنَ : مدین والے وَكُذِّبَ : اور جھٹلایا گیا مُوْسٰى : موسیٰ فَاَمْلَيْتُ : پس میں نے ڈھیل دی لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو ثُمَّ : پھر اَخَذْتُهُمْ : میں نے انہیں پکڑ لیا فَكَيْفَ : تو کیسا كَانَ : ہوا نَكِيْرِ : میرا انکار
اور اصحاب مدین اور موسیٰ بھی جھٹلایا گیا اور ہم نے پہلے منکروں کو ڈھیل دے دی پھر پکڑ لیا تو دیکھ ہماری ناپسندیدگی ان کے لیے کیسی سخت ہوئی ؟
اصحاب مدین نے جھٹلایا اور موسیٰ (علیہ السلام) بھی جھٹلائے گئے : 44۔ گزشتہ دونوں آیتوں کی طرح یہ بھی آپ ﷺ کو تسلی دینے کے لئے بیان کیا گیا ہے ، ایک بات شاید ذہن میں کھٹک پیدا کرے کہ باقی انبیاء کرام کی قوموں کا ذکر کرکے کہا گیا کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے جھٹلایا اور ثمود قوم نے جھٹلا ایا اور اسی طرح اصحاب مدین نے بھی جھٹلایا لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کا ذکر مجہول کے صیغہ سے کیا گیا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب آپ کی قوم نے نہیں کی تھی بلکہ ایک دوسری قوم نے کی تھی یعنی قوم فرعون نے اور یہ بات اس اعتبار سے کی جا رہی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا تعلق نسبی بنی اسرائیل سے تھا قبطیوں سے نہیں تھا اور آخر آیت میں ارشاد فرمایا گیا کہ (فکیف کان نکیر) ” میری ناپسندیدگی ان کے لئے کیسی سخت رہی ۔ “ (نکیر) دراصل نکیری تھا اور عربی قاعدہ کے تحت ” ی “ نسبتی گر گئی اور اب ” ر “ کی زیر نے وہ کام دیا جو ” ی “ دے رہی تھی (نکیر) کے معنی انکار ہی کے کئے جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ انکار کوئی پسندیدہ چیز نہیں خصوصا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انکار ہو تو ظاہر ہے کہ اس سے ناپسندیدگی ہی کا مفہوم نکلے گا اور یہی بات ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا جس کے نتیجہ میں وہ تباہ وبرباد کردیئے گئے اور اس سے نبی کریم ﷺ کو بتا دیا گیا کہ مکہ والوں نے آپ ﷺ کی مخالفت کر کے ثابت کردیا ہے کہ ان کا انجام بھی ان ہی لوگوں جیسا ہوگا جو پہلے نبیوں اور رسولوں کے مخالفین کا ہوچکا ۔
Top