Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 54
وَّ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَیُؤْمِنُوْا بِهٖ فَتُخْبِتَ لَهٗ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَّلِيَعْلَمَ : اور تاکہ جان لیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْعِلْمَ : علم دیا گیا اَنَّهُ : کہ یہ الْحَقُّ : حق مِنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب سے فَيُؤْمِنُوْا : تو وہ ایمان لے آئیں بِهٖ : اس پر فَتُخْبِتَ : تو جھک جائیں لَهٗ : اس کے لیے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَهَادِ : ہدایت دینے والا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ لوگ جو ایمان لائے اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
جن لوگوں نے علم پایا ہے وہ جان لیں کہ یہ معاملہ تیرے پروردگار کی طرف سے ہے اس طرح اس پر ایمان لے آئیں اور ان کے دلوں میں عجز و نیاز پیدا ہوجائے یقینا اللہ ایمان والوں کو سیدھی راہ چلانے والا ہے
حق کے مقابلہ میں باطل کو مہلت دیئے جانے کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ ۔ 54۔ فرمایا کہ اہل علم میں ایمانی پختگی اس وقت ہی پیدا ہو سکتی ہے جب حق اور باطل کی ٹکر ہو اور باطل کو اپنا زور دکھانے کے لئے مہلت دی جائے ، یہ بات بلاشبہ صحیح ہے کہ اس ٹکر میں ہمیشہ حق کامیاب رہا اور باطل مٹ گیا لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوا ؟ یہی کہ اس سے اصلیت واضح ہوگئی جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے اصل حقیقت اضداد ہی سے واضح ہوتی ہے ۔ ایک بات آپ مانتے اور یقین رکھتے ہیں لیکن اس کے خلاف جو کچھ بیان کیا جاسکتا ہے اس کا آپ کو علم نہیں تو اس بات کا امکان یقینا موجود ہے کہ اس کے خلاف اگر کچھ بیان کیا جائے یا کوئی بیان کرنے والا کر دے تو آپ کا علم ویقین متزلزل ہوجائے اس لئے تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو لوگ اس کے خلاف بیان کئے جانے سے بھی واقف ہیں اور پھر اس پر یقین رکھتے ہیں وہ اس کے علم ویقین میں بھی پختہ ہوں گے اس کی حقیقت سمجھنا ہو تو سورة آل عمران کی آیت 173 ‘ 174 کا مطالعہ کریں ۔ احد میں جو کچھ ہوا سب کو معلوم ہے اور شاید کچھ لوگ اس حقیقت کو بھی جانتے ہوں کہ ایسا کیوں ہوا ؟ بہرحال احد سے پلٹتے ہوئے ابو سفیان مسلمانوں کو چیلنج دے گیا تھا کہ آئندہ سال بدر میں ہمارا تمہارا مقابلہ ہوگا مگر جب وعدہ کا وقت قریب آیا تو اس کی ہمت نے جواب دے دیا کیونکہ اس سال مکہ میں بہت قحط تھا اس نے پہلو بچانے کے لئے یہ تدبیر کی کہ خفیہ طور پر ایک شخص کو بھیجا جس نے مدینہ پہنچ کر مسلمانوں میں یہ خبریں مشہور کیں کہ اب کے سال قریش نے بڑی زبردست تیاری کی ہے اور ایسا بھاری لشکر جمع کر رہے ہیں جس کا مقابلہ تمام عرب میں کوئی نہ کرسکے گا چناچہ قرآن کریم میں نے اس کا اس طرح ذکر کیا ” جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوتی ہیں ‘ ان سے ڈرو ‘ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا “ غور کیجئے کہ یہ خبر ایمان بڑھانے کا باعث کیسے ہوگئی حالانکہ اس سے تو ان لوگوں کے حوصلے پست ہوجانے چاہئے تھے ، اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ اس وقت کامیابی ہمارا مقدر ہے اور یہ بات کہنے والے محض دھوکہ دہی سے کام لے رہے ہیں ، اس لئے انہوں نے یہ خبر گرم کرنے والوں کو فورا جواب دیا کہ ” ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور ہی بہترین کارساز ہے ۔ “ بہرحال اے پیغمبر اسلام ! ﷺ اور آپ کے ساتھی میدن بدر میں آگئے اور ادھر سے ابو سفیان دوہزار کی جمعیت لے کر چلا مگر دو روز کی مسافت تک جا کر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا اس سال لڑنا مناسب نہیں معلوم ہوتا ۔ اب واپس چلیں اور آئندہ سال آئیں گے چناچہ اس طرح وہ اپنے لوگوں کو لے کر واپس چلا گیا نبی کریم ﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آٹھ روز تک بدر کے مقام پر اس کے انتظار میں مقیم رہے اور اس دوران آپ کے ساتھیوں نے ایک تجارتی قافلہ سے کاروبار کر کے خوب مال کمایا اور جب یہ خبر معلوم ہوگئی کہ ابو سفیان اپنا لاؤ لشکر لے کر واپس چلا گیا تو آپ بھی اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس لوٹ آئے چناچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ” آخر کار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلنے کا انہیں شرف بھی حاصل ہوگیا اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی فضل و کرم کرنے والا ہے ۔ “ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جن لوگوں کا علم راسخ اور حکمت وبصیرت پر مبنی ہو ان کا ایمان یقینا تقلیدی قسم کا نہیں ہوتا جو ذرا جھونکا آئے تو ڈولنے لگے بلکہ صحیح اور راسخ علم سے صحیح اور راسخ ایمان پیدا ہوتا ہے اور اس راسخ ایمان سے وہ اسلام وجود میں آتا ہے جو ایمان ویقین کی اصل روح ہے اور جس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے ہاں ایمان کوئی وزن قائم نہیں ہوتا معلوم ہوا کہ مصیبت کے وقت گھبرانا ایمان کی پختگی کی نشانی نہیں بلکہ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے اور یہی بات زیر نظر آیت میں بیان کی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ آخرت پر یقین نہ رکھنے والوں کا ایمان ہمیشہ متزلزل ہی رہتا ہے اور اسی متزلزل ایمان کو نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے ، ” یقینا اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو سیدھی راہ چلانے والا ہے “ کہ جب وہ کسی مصیبت کی گھڑی کو دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں کو صبر وثبات کی راہ دکھا کر پکا کردیتا ہے وہ کبھی ایسی حالت میں گھبرانے والے نہیں ہوتے بلکہ مصیبت میں گھر کر وہ مزید کندن ہو کر رہ جاتے ہیں جو میل کچیل ہوتا ہے وہ بھی ان کا صاف ہوجاتا ہے ۔ اس لئے کسی نے کہا ہے کہ : تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے :
Top