Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 53
لِّیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْقَاسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍۭ بَعِیْدٍۙ
لِّيَجْعَلَ : تاکہ بنائے وہ مَا يُلْقِي : جو ڈالا الشَّيْطٰنُ : شیطان فِتْنَةً : ایک آزمائش لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : مرض وَّ : اور الْقَاسِيَةِ : سخت قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاِنَّ : اور بیشک الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) لَفِيْ شِقَاقٍ : البتہ سخت ضد میں بَعِيْدٍ : دور۔ بڑی
شیطان کی وسوسہ اندازی ان لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہوجائے جن کے دل روگی ہیں اور سخت پڑگئے ہیں اور بلاشبہ یہ ظلم کرنے والے بڑی ہی گہری مخالفت میں پڑے ہیں
شیطان کی ڈالی ہوئی خرابی روگی دلوں کے لئے آزمائش بنا دی جاتی ہے : 53۔ کسی قوم کا اپنے نبی اور رسول کی تکذیب کرنا انسانی تاریخ میں کوئی نیا واقع نہیں بلکہ ہر وہ تحریک جو دین کے نام پر کام شروع کرے شیطان کوشش کرتا ہے کہ اس کو کسی نہ کسی ایسی آزمائش میں مبتلا کردیا جائے کہ یہ فیل ہو کر رہ جائے لیکن اس شیطان نے کبھی کھل کر بھی مخالفت کی ؟ ہرگز نہیں اس کی سرشت میں یہ داخل ہے کہ جس کو اس نے دھوکا و فریب میں مبتلا کرنا ہوتا ہے اس کے ساتھ لگ جاتا ہے اور اس کا پیچھا بالکل نہیں چھوڑتا اور اس کا ایسا خیر خواہ بنتا ہے کہ وہ باور کرجاتا ہے کہ اس سے زیادہ میرا کوئی اور خیر خواہ نہیں ہو سکتا اس طرح جب اس کا پورا اعتماد جم جاتا ہے تو ایک دم ایسی چال چلتا ہے کہ اس کو معلوم بھی نہیں ہونے دیتا اور کسی ایسے کنوئیں میں گراتا ہے جہاں سے اس کا نکلنا نہایت ہی مشکل ہوجاتا ہے اور یقینا وہاں سے پھر وہی نکلتا ہے جس پر اللہ کا بہت ہی بڑا فضل ہے ورنہ اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ بہت ہی کم لوگ ہیں جو نکل پائے ہوں ، فرمایا ہم نے یہ موقع اس کو اس لئے دیا کہ اس طرح کھوٹے اور کھرے کی تمیز بہت جلد ہوجاتی ہے اور آزمائش سے جو نکلتا ہے وہ صحیح معنوں میں کندن ہوتا ہے اور جس میں ذرا بھی میل ہو وہ اس طرح بالکل صاف صاف دکھائی دینے لگتی ہے اور کٹھیالی میں جاتے ہی وہ جل کر ختم ہوجاتی ہے فتنہ کیا ہے ؟ آزمائش وامتحان ہے اور امتحان کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ فیل یا پاس اگر امتحان نہ ہوتا تو یہ فیل اور پاس کی وضاحت کا اور کیا طریقہ تھا ؟ اس لئے جہاں حق ہے وہاں باطل کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ حق کی پہچان ہوتی رہے بلاشبہ نقیضین میں سے ایک کا خاتمہ کردیا جائے تو دوسری کا نام ونشان ہی مٹ کر رہ جاتا ہے ، بعض اوقات پتیل اور تانبا سونے سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آنے لگتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پیتل یا تانبا سونا ہوجائے دونوں میں نہایت واضح فرق موجود ہے ، انسانوں کے اندر نفاق کی ایک ایسی بیماری ہے کہ اس کا پہچاننا نہایت ہی مشکل ہوجاتا ہے ، زیر نظر آیت میں اس بیماری کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے اور قرآن کریم نے نفاق کو ایک بہت بڑا روگ قرار دیا ہے اور اس طرح اس کی وضاحت کی ہے کہ اب اس کا پہچاننا اتنا مشکل نہیں البتہ اس کا نکالنا نہایت ہی مشکل ہے ہاں ! اتنی بات ضرور ہے کہ اگر صحیح معنوں میں اس کی پہچان ہوجائے تو پھر پہچان جانے والوں کو اس قدر نقصان نہیں پہنچاتا ۔ “ بلاشبہ یہ ظلم کرنے والے بڑی ہی گہری مخالفت میں پڑے ہیں ۔ “ گویا یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ یہ اس بیماری نفاق کے باعث حق سے اتنے دور نکل چکے ہیں کہ ان کا واپس آنا ممکن نہیں نظر آتا اس لئے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور ان کو من مانیاں کرلینے دو اس لئے کہ اب ان کے دن گنے جا چکے ہیں اور حد سے تجاوز کرنے والوں کا جو علاج سنت اللہ میں طے ہے وہ ان ظالموں کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے ۔
Top