Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 12
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : البتہ ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے سُلٰلَةٍ : خلاصہ (چنی ہوئی) مِّنْ طِيْنٍ : مٹی سے
اور ہم نے انسانوں کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا
انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا گیا ہے جس کو ” جوہر “ بھی کہا جاتا ہے : 12۔ (سلالۃ) چنی ہوئی ‘ نچوڑی ہوئی ‘ نچوڑ ‘ خلاصہ سل سے جس کے معنی کسی چیز کو کسی چیز سے کھینچنے سوتنے اور نچوڑنے کے ہیں اسم مشتق ہے ۔ (سلالۃ) کا لفظ دو بار قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور اسی مادہ سے (یتسللون) کا لفظ بھی ہے جو سورة النور کی آیت 63 میں آیا ہے جس کے معنی ہیں کہ ” وہ کھسک جاتے ہیں “ جمع مذکر غائب کا صیغہ ۔ قرآن کریم میں انسان کی پیدائش کا ذکر بہت سی جگہوں میں آیا ہے اور تقریبا ہر جگہ یہی بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا گیا ہے اور پھر انسان اول کی پیدائش کے بعد خواہ وہ کتنی ہی تعداد میں پیدا کئے گئے ہوں اس کے لئے ایک ضابطہ مقرر کردیا گیا جس کا تعلق جنس انسانی کی دونوں اصناف مرد و عورت سے قائم کیا گیا ۔ اس جگہ بھی انسان کی ابتدائی پیدائش کا پہلے ذکر کیا گیا کہ وہ کس چیز سے ہوئی ؟ (سلالۃ من طین) یعنی ایک ایسے جوہر سے جو کیچڑ کا خلاصہ تھا ۔ مطلب یہ ہے کہ مرطوب چیز مدتوں تک خمیر کی حالت میں رہی پھر اس میں کوئی ایسی چیز پیدا ہوگئی جسے اس کا خلاصہ اور ست سمجھنا چاہئے اس خلاصہ سے زندگی کی اولین نمود ہوئی اور اس سے بالآوجود انسانی متشکل ہوا۔
Top