Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 7
فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ
فَمَنِ : پس جو ابْتَغٰى : چاہے وَرَآءَ : سوا ذٰلِكَ : اس فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْعٰدُوْنَ : حد سے بڑھنے والے
اور جو کوئی اس کے علاوہ دوسری صورت نکالے تو ایسی صورتیں نکالنے والے ہی ہیں جو حد سے باہر ہو گئے
خواہش نفسانی کے اسی طرح ازالہ کے خلاف جو بھی کیا جائے وہ حد سے تجاوز کرنا ہے : 7۔ لوگوں نے اس وقت بھی جب قرآن کریم کا نزول ہوا اس خواہش کے ازالہ کے لئے بہت سی صورتیں اختیار کی ہوئی تھیں اور آج بھی امت مسلمہ کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بہت سی صورتیں اختیار کرلی ہیں اور اس معاملہ کو اتنی وسعت دے رکھی ہے کہ سوائے ایک جبر کے باقی کوئی ممانعت ہی نہیں رکھی اور یہاں تک کہ اس مسئلہ کو انسانیت سے اٹھا کر خالصتا حیوانیت کا مسئلہ قرار دے دیا ہے اور تجاوز کی حدود کو پھلانگ کر اتنے دور نکل چکے ہیں کہ ذوالارحام کی فہرست کو بھی منسوخ کردیا ہے اور فریقین کی رضا سے سب کچھ جائز ہے ۔ رہے وہ لوگ جو اسلام کے اقراری ہیں ان میں سے ایک گروہ تو متعہ کے ذریعہ سے اپنی من مانیاں کرتا ہے اور اس کے فضائل میں وہ مبالغہ آرائیاں کی گئی ہیں کہ یہاں پہنچ کر اس سلسلہ کی ساری اسلامی تعلیمات کا وہ صفایا کردیتا ہے اور غیرت ایمانی اور حمیت انسانی کا جنازہ نکال دیتا ہے حالانکہ اس کی ممانعت کے لئے صرف یہی آیت کافی تھی جس میں بڑی وضاحت سے بیان فرمایا دیا گیا کہ (آیت) ” فمن ابتغی ورآء ذلک فاولئک ھم العدون “۔ ” پس جو کوئی اس کے علاوہ دوسری صورت نکالے تو ایسی صورتیں نکالنے والے ہی ہیں جو حد سے باہر ہوگئے ۔ “ لیکن افسوس کہ جب کوئی مسئلہ کسی مکتب فکر کے نام سے موسوم ہوجاتا ہے اور وہ مکتب فکر اس کو تسلیم کرلیتا ہے اور اس کو ایک فکر کی حمایت حاصل ہوجاتی ہے تو پھر اس کی ساری کی ساری بدصورتی خودبخود ختم ہو کر رہ جاتی ہے اور اس طرح ضد میں آکر وہ اپنی ساری بےحیائی کے باوجود پھلتا پھولتا رہتا ہے اور پھر کوئی شخص اس کو برا نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس کو ایک مکتب فکر سے سند جواز حاصل ہوجاتی ہے ۔ شیعہ گروہ اپنی ساری کفریات کے باوجود اسلامی گروہ میں شمار کئے جاتے ہیں اور متعہ ان کے ہاں عمل مستحسن شمار کیا جاتا ہے خصوصا جب معمر مرد چھوٹی عمر کی باکرہ کنواری سے متعہ کرے اور انہوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ ” ولا باس بالتمتع بالھاشمیۃ “ (تہذیب الاحکام ج 7 ص 271 مطبوعہ نجف اشرف) ” خاندان نبوت کی خواتین کے ساتھ بھی متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ “ سر کو پیٹ لو اور دوسری مثال کے طور پر آپ ایک حلالہ ہی کو لے لیں کہ کتنی بڑی جسارت ہے کہ ایک آدمی عالم کہلانے والا اپنی مسند فتوی پر بیٹھ کر سودا طے کرتا ہے اور سودے میں نقد بہ نقد وصول کرکے مذہب کے نام سے دوسرے کی بیوی ہتھیا لیتا ہے اور مکمل طور پر بےغیرتی کا مظاہرہ کرنے کے بعد صبح کو وہ عورت عورت والے کے سپرد کرکے اس کو ممنون کرتے ہوئے تاریخوں کی ادلی بدلی سے اس کے ساتھ نکاح کردیتا ہے اور کتنا دیوث ہے وہ مرد جس نے اپنی بیوی بھی بخوشی پیش کی اور ساتھ ہی ہزاروں روپے بھی دیئے تاکہ اس کی حرام کردہ چیز کو وہ دوبارہ حلال کردے لیکن یہ کام کھلے بندوں کیا کرایا جا رہا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ اس کو ایک بہت بڑے مکتب فکر کی حمایت حاصل ہے اور مذہب کے نام پر یہ سب کچھ برداشت کرلیا جاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر بےغیرتی اور بےحیائی کی صورت یہ ہے کہ ایک بدکار اٹھتا ہے اور وہ ایک لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ حاملہ ہوجاتی ہے اور جب حمل ظاہر ہوجاتا ہے تو لڑکی والے سرجوڑتے ہیں کی اب کیا کیا جائے اور سمجھتے ہیں کہ شاید ہمارے اس قضیہ کا حل کسی ملاں کے پاس ہو وہ اس کو بڑی عزت واحترام کے ساتھ الگ بلاتے ہیں اور صورتحال بیان کردیتے ہیں ملاں ان کو کہتا ہے کہ اس کا حل ایک ہی ہے کہ اسی بدکار سے جس کا اس نے حمل اٹھایا ہے نکاح کر دو یہی تمہارے مسئلہ کا آسان اور بہتر حل ہے وہ ایک رقم اپنے فتوی کی حاصل کرتا ہے اور دوسری نکاح پڑھنے کی اور رات کے وقت پرسکون ماحول میں گاؤں ‘ بستی ‘ محلے اور شہر کے چند وڈیروں کو گواہ بنا کر اس زانی سے اس کا نکاح کردیتا ہے اور اس طرح اس حرام کو ان دونوں فریقوں کے لئے حلال کر کے دکھا دیتا ہے اور اسی طرح کی اور بھی کتنی ہی باتیں ہیں جو خواہشات نفسانی کے ازالہ کے لئے تجویز کرلی گئی ہیں جن کا شریعت اسلامی میں کوئی جواز نہیں ہے لیکن مذکورہ حلالہ کو سواد اعظم کی حمایت حاصل ہے اس لئے اب کون ہے جو اس کو برا کہے اور کون ہے جو اس کو برا مانے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون “۔
Top