Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 80
وَ هُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ وَ لَهُ اخْتِلَافُ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : وہی جو يُحْيٖ : زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ : اور مارتا ہے وَ لَهُ : اور اسی کے لیے اخْتِلَافُ : آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پس تم سمجھتے نہیں
اورو ہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے ، اسی کی کارفرمائی ہے کہ رات دن ایک دوسرے کے پیچھے آتے رہتے ہیں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟
زندگی اور موت اس کے قبضہ میں ہے جو رات اور دن کو لانے والا ہے اگر تم سمجھو : 80۔ غور کرو کہ چند لفظوں میں کتنا بڑا مضمون پوشیدہ ہے ۔ ذرا قرآن کریم نے اس استدلال پر غور کرو ‘ رک جاؤ جلدی نہ کرو فرمایا جارہا ہے کہ وہی ہے جو جلاتا ہے اور موت طاری کرتا ہے اور یہ اسی کی کارفرمائی ہے کہ رات دن کے پیچھے آتی رہتی ہے اور دن رات کے پیچھے (اختلاف الیل والنھار) کہہ کر اس قانون ہستی کی طرف اشارہ کیا ہے جسے قرآن کریم قانون ازواج سے تعبیر کرتا ہے اور ہم اس کو اپنی مقررہ مصطلحات میں قانون تثنیہ کہہ سکتے ہیں یعنی کارخانہ ہستی کے ہر گوشہ میں ہم دیکھتے ہیں یہاں کوئی حقیقت اکہری اور طاق نہیں ہے کسی نہ کسی شکل میں دو دو ہونے کی نوعیت ضرور پائی جاتی ہے ہرچیز کی تکوین وتشکیل اسی طرح ہوگی کہ دو متماثل اور متقابل نوعیتیں ابھریں گی اور اسی تماثل وتقابل کا تثنیہ ایک مکمل حقیقت کی شکل اختیار کرے گا مثلا ہر نر کے لئے مادہ ‘ مرد کے لئے عورت ‘ زندگی کے لئے موت ‘ رات کے لئے دن ‘ صبح کے لئے شام مثبت کے لئے منفی ‘ تکوین کے لئے افساد اس طرح غور کرتے جاؤ تم جس گوشہ میں بھی دیکھو گے ہر حقیقت کے ساتھ اس کا کوئی نہ کوئی مثنی بھی ضرور موجود ہے (آیت) ” ومن کل شیء خلقنا زوجین لعلکم تذکرون “۔ (51 : 49) اور ہرچیز کے ہم نے جوڑے جوڑے بنائے ہیں شاید کہ تم اس سے سبق حاصل کرو “۔ واضح ہوگیا کہ دنیا کی تمام اشیاء تزویج کے اصول پر بنائی گئی ہیں اور یہ سارا کارخانہ اسی اصول پر چل رہا ہے کہ بعض چیزوں کا بعض سے جوڑ لگتا ہے اور پھر ان کا جوڑ لگتے ہی طرح طرح کی ترکیبیں وجود میں آجاتی ہیں یہاں کوئی چیز بھی ایسی منفرد نہیں ہے کہ دوسری کوئی شے اس کا جوڑ نہ ہو بلکہ ہرچیز اپنے جوڑے سے مل کر ہی نتیجہ خیز ہوتی ہے ، قرآن کریم نے اس کی بہت وضاحت کی ہے لیکن افسوس کہ علماء اسلام نے اس کو کوئی اہمیت نہ دی ۔ قرآن کریم کا استدلال یہ ہے کہ اگر کارخانہ ہستی کہ ہر گوشہ میں دو دو ہونے کی حقیقت کام کر رہی ہے اور یہاں ہستی کی کوئی نمود بغیر اپنے مثنی اور زوج کے نہیں ہے تو پھر تمہیں اس بات پر کیوں تعجب ہے کہ انسانی زندگی کی نمود بھی اکہری نہیں ہے بلکہ یقینا دوہری ہے اور دنیوی زندگی کے لئے بھی ایک مثنی ہے اور اسی کا نام آخرت ہے ؟ جس حقیقت کو تم بیس بھیسوں میں دیکھتے ہو اور پہچانتے ہو اس کو اکیسویں بھیس میں دیکھ کر کیوں چونک اٹھتے ہو ؟ آیت کے خاتمہ پر غور کرو ارشاد ہوتا ہے کہ (افلا تعقلون ؟ ) خطاب کس سے ہے ؟ تعقل و تفکر سے اور ہمارے ہاں وہی مفقود ہے ۔
Top