Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 2
اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ١۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ۚ وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيَةُ : بدکار عورت وَالزَّانِيْ : اور بدکار مرد فَاجْلِدُوْا : تو تم کوڑے مارو كُلَّ وَاحِدٍ : ہر ایک کو مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے مِائَةَ جَلْدَةٍ : سو کوڑے وَّلَا تَاْخُذْكُمْ : اور نہ پکڑو (نہ کھاؤ) بِهِمَا : ان پر رَاْفَةٌ : مہربانی (ترس) فِيْ : میں دِيْنِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت وَلْيَشْهَدْ : اور چاہیے کہ موجود ہو عَذَابَهُمَا : ان کی سزا طَآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنَ : سے۔ کی الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مسلمان
بدکار عورت اور بدکار مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ (تاکہ اسلامی معاشرہ بدکاری اور بےحیائی سے مکمل طور پر بچ سکے) اور تم کو اللہ کے دین (قانون) میں ان دونوں پر ترس نہ آئے اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور دونوں کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر کرلیا کرو (یہ کہ وہ عبرت پکڑیں)
زانی اور زانیہ کو سو کوڑے لگانے کا حکم عام : 3۔ زنا کا لفظ عربی ‘ اردو اور فارسی میں ایک ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ بغیر عقد شرعی کے عورت کے ساتھ مخصوص مقام پر دخول کرنا مفسرین اور خاص کر فقیہان امت نے اس پر بہت حاشیے چڑھائے ہیں اور فریقین کا آزاد اور عاقل وبالغ ہونا ضروری قرار دیا ہے ، دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارنے کا حکم بیان ہوا ہے ۔ جلدہ درہ مارنا ‘ کوڑا مارنا ‘ کھال پر مارنا ‘ کوڑا یا درہ کیا ہے ؟ درہ عربی میں بھی استعمال ہوا ہے اور اردو میں بھی اور کوڑا ہندی کا لفظ ہے جو اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کو تازیانہ بھی کہا جاتا ہے اور چمڑے کی چابک بھی کہا جاتا ہے جس کو مارنے سے فقط انسان کی جلد متاثر ہوتی ہے گوشت کو نقصان نہیں پہنچتا ۔ ضرب جلدہ اس کی جلد پر مارا اور ضربہ بالجلد اسے چمڑے کے ساتھ مارا (راغب) اس جگہ پہلے معنی مراد ہیں اور جلد مصدر ہے ، کسی چیز کے ساتھ مارا اور جلدہ کے معنی ہیں اصاب جلدہ اس کی جلد یعنی چمڑے کو پہنچا (لسان العرب) اس کی تشریح میں بہت کچھ کہا گیا ہے ۔ آج کل درے یا کوڑے کا جو تصور دیا گیا ہے بلاشبہ وہ کوڑا یا درہ جس سے زانی اور زانیہ کو سزا دی جاتی تھی بالکل مختلف تھا ، اسلامی مقننہ کا کام ہے کہ اس کی وضاحت کرے اور اس کے سارے پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ایک مخصوص کوڑا تیار کروایا جائے جو اس مقصد کے لئے رکھا جائے اور اسلامی حکومت اس سزا کا بندوبست کرے اور قاعدہ کے مطابق وضاحت ہوجانے کے بعد سزا کا اعلان کرے ، جس طرح ہمارے ملک میں ہر قانون جس کا اسلام کا نام دیا جاتا ہے اندھا دھند اس کا اعلان کیا جاتا ہے اس سے وہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جو مزید بگاڑ کا سبب بنتی ہیں اور آج تک جو ہوا اس کا یہی رزلٹ سامنے آیا ہے اور اسلام کی بدنامی کا باعث بنا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ اعلان کرنے والوں کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کسی چیز کا اعلان کر رہے ہیں اور نافذ کرنے والے اداروں کو اس کا علم ہوتا ہے اس لئے قانون کی جو گت بنتی ہے اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھنا چاہئے ۔ اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ میں نرمی مت کرو : 4۔ جو لوگ زنا جیسی بےحیائی کے مرتکب ہوتے ہیں ان کو سزا دینے کا وقت آئے تو تم کو حق نہیں کہ کسی طرح کی مداہنت سے کام لو ‘ اپنی پوری مستعدی کے ساتھ حد کو نافذ کرو۔ اس راہ میں کبھی چشم پوشی اور نرمی کو راہ نہ دو ۔ نہ عورت کے ساتھ نہ مرد کے ساتھ ۔ خواہ وہ کون ہوں امیر ہوں یا غریب ‘ سید ہوں یا پٹھان پھر اس ہدایت پر سخت اور کڑی پابندی لگاتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ” اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو تم کو ترس نہ آئے “ کیونکہ یہ ترس آنے کا مقام نہیں اس بےحیائی اور بےغرتی کو ختم کرنے کا مقام ہے اور تم پر لازم ہے کہ اس کو ہر ممکن ختم کرو اور بلاشبہ اس کے ختم ہونے کی صرف اور صرف یہ ایک ہی صورت ہے اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت نہیں ۔ (الزانیۃ والزانی) میں زانیہ کا پہلے نام لینے پر ہمارے مفسرین نے بہت ہی حاشیے چڑھائے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عورت ہی کی طرف سے اس سلسلہ میں پہل ہوتی ہے حالانکہ یہ بالکل صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح اس کا عکس ہے ۔ زانیہ کے مقدم ذکر میں اگر کوئی فلسفہ ہے تو وہ ہو سکتا ہے کہ عورت کی رضا مندی ہی سے عورت مجرم ہوتی ہے زنا بالجبر میں عورت قصور وار نہیں ٹھہرتی اس لئے وہ سزا سے بچ جاتی ہے اور سزا کا مستحق صرف مرد ہی ہوتا ہے اور اس کو سزا دی جاتی ہے جیسا کہ آگے قرآن کریم نے خود اس کی تشریح کردی ہے ۔ سزا دیتے وقت اعلان و اجتماع بھی ضروری ہے تاکہ دیکھنے والوں کو عبرت ہو : 5۔ سزا دیتے وقت یہ لازم وضروری قرار دیا گیا کہ سزا عام لوگوں کے سامنے دی جائے تاکہ ایک طرف مجرم کی فضیحت ہو اور دوسری طرف عوام کو نصیحت بھی تاکہ وہ اس فعل کی سزا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اس بےحیائی سے باز رہیں اور ان کے دلوں میں اس کا خوف رہے کہ اگر اس کا کہیں ارتکاب ہوگیا تو سزا اپنی جگہ پر قائم رہی اور یہ فضیحت سزا سے بھی زیادہ بری چیز ہے اور یہ بھی کہ سزا دینے والے کے متعلق یہ وضاحت ہوجائے گی کہ اس نے مجرم کے ساتھ زیادتی یا کسی طرح کی کوئی رعایت برتی ہے یا نہیں ۔ اس لئے یقینی طور پر سزا کا نام دیا جانا لازم ٹھہرتا ہے جس کے لئے اعلان اجتماع ضروری قرار پاتا ہے تاکہ اس کی تشہیر ہو اور لوگ اس بےحیائی کے قریب نہ پھٹکیں ، کچھ لوگوں نے اس سزا کو وحشیانہ سزا قرار دیا ہے اور مفسرین نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ سزا وحشیانہ نہیں ہے پھر اس میں کلام بہت طویل ہوا ہے ہم صرف یہ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ فعل وحشیانہ نہیں ہے ؟ اگر ہے اور فی الواقعہ ہے تو یقینا اس کی سزا بھی ایسی ہی ہونی چاہئے تھی اس لئے کہ وحشیانہ جرم کے مرتکب کے لئے مہذب سزا کوئی سزا ہی نہیں ہے اور یہ اصول سب کے ہاں تسلیم ہے کہ ” جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔ “ کوڑوں کی سزا کو وحشیانہ کہنے والوں کو پہلے زنا کو ایک مہذبانہ جرم ثابت کرنا چاہئے ورنہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ ایک انسان کو وحشیانہ جرم کی وحشیانہ سزا ہی صحیح معنوں میں ایک مہذب انسان بنا سکتی ہے اور اسلام یہی چاہتا ہے معروف ہے کہ ” عاقل را اشارہ کافی است “۔ قرآن کریم نے اس سزا کے اعلان سے پہلے مختلف مقامات میں زنا کو بدترین خصائل میں شمار کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ ایک مہذب انسان کا فعل نہیں ہو سکتا اور یہاں تک کہ اس کی برائی کے باعث شرک ‘ ناحق قتل اور زنا کو ایکد وسرے کے قریب قریب بتایا ہے جیسا کہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر ولا یقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق ولا یزنون “۔ (الفرقان 25 : 68 ‘ 69) ” اور جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں اور ناحق وناروا کسی جان سے نہ ماریں کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے اور نہ ہی وہ زنا کے مرتکب ہوں ۔ “ دائرہ اسلام میں داخل کرنے کے لئے عورتوں کے سامنے جو شرائط پیش کی گئی ہیں ان میں سے بھی ایک یہ تھی کہ (آیت) ” ولا یزنون “ (الممتحنہ 60 : 12) ” اور نہ وہ بدکاری کریں گے “ اور یک جگہ ارشاد فرمایا (آیت) ” ولا تقربوا الزنی انہ کان فحشۃ وسآء سبیلا “۔ (بنی اسرائیل 17 : 22) ” اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے ۔ “ اور رسول اللہ ﷺ نے اس کی برائی کو بہت بڑی اور بری برائی قرار دیا ہے ۔ ایک صحابی نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ای الذئب اعظم عند اللہ قال ان تحمل اللہ ندا وھو خلقک قلت ثم ای قال ان تقتل ولدک خشیہ ان یا کل معک قلت ثم ای قال وان تزنی حلیلۃ جارک “ (عن عبداللہ ؓ ” عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا گناہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا جس نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر اپنی اولاد کو قتل کردینا اس خیال سے کہ وہ تمہارے ساتھ مل کر کھائے گی اور میں نے اس کے بعد کیا ہے ؟ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا۔ “ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر پڑوسی کی بیوی نہ ہو تو کوئی بڑائی نہیں بلاشبہ وہ بھی وحشیانہ جرم ہے لیکن ہمسایہ کے ہاں ایسا فعل اس وحشیانہ برائی میں مزید اضافہ کردیتا ہے کیونکہ ہمسایہ امن وسلامتی کا زیادہ مستحق ہوتا ہے بہ نسبت غیر ہمسایہ کے خواہ وہ کون ہے ۔ گزشتہ دونوں آیات پر ایک مجموعی نظر : فرمایا گیا ہے کہ زنا کی برائی ایسی برائی ہے جو پوری امت کو نیست ونابود کردیتی ہے جس سے تہذیب وحضارت اور تمدن وشائستگی کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہتا ۔ جس سے اعمال حسنہ اور اخلاق فاضلہ کا استیصال کلی ہوجاتا ہے ، یہ ایک ایسی وحشیانہ حرکت ہے جو کسی مہذب انسان سے سرزد نہیں ہوسکتی بلکہ اس کا مرتکب رہی انسان ہو سکتا ہے جو شکل و صورت سے اگرچہ انسان نظر آتا ہے لیکن اپنے عمل کے باعث وہ ثابت کردیتا ہے کہ ایک گدھے ‘ گھوڑے ‘ کتے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ وہ انہی وحوش میں داخل ہے اس لئے اس کی شکل و صورت تقاضا کرتی ہے کہ اس کو بتایا جائے کہ تم گدھے ‘ گھوڑے اور کتے کی طرح صرف ایک وحشی جانور ہی نہیں بلکہ تم انسان ہو اور انسانیت کے تقاضہ کے یہ حرکت خلاف ہے اس لئے اس نے جس طرح کی حرکت کی ہے اسی طرح کی اس کو سزا دی گئی تاکہ وہ اس بات کو باور کرے کہ وہ ایک وحشی جانور ہی نہیں بلکہ انسان ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ ممکن ہے اس قانون کے نافذ کرنے میں تمہیں دقتیں پیش آئیں ‘ عام لوگوں کو تکلیف محسوس ہو ‘ جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس کو وحشیانہ تصور کرکے اس کے قبول کرنے سے انکار کردے مگر تم اپنی نظر ان نتائج پر رکھو جو اس سے پیدا ہوں گے ، تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ قومی نشو ووارتقا اور انسداد فسق وفجور کا ذریعہ واحد یہی ایک قانون ہے جو ہم نے اس جگہ بیان کردیا ہے اور علاوہ ازیں اس کا کوئی انسداد ممکن نہیں ہے جو معاشرہ اس قانون کو قبول نہیں کرے گا وہ معاشرہ اسلامی معاشرہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ اس برائی سے کبھی بچ سکے گا ۔ تم اچھی طرح سمجھ جاؤ کہ زنا انسانیت کو ختم کردینے والی چیز ہے جو ایک وحشیانہ عمل ہے اور جو لوگ اس سزا کو وحشیانہ قرار دیں ان سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دو کہ وحشیوں کے لئے وحشیانہ سزا ہی تجویز کی جاسکتی تھی اور وہی تجویز کی گئی ہے لہذا اس سزا کو مستعدی کے ساتھ نافذ کر دو ۔ اس میں امت مسلمہ ہی کو بتایا گیا ہے کہ قانون بناتے وقت واضعین آئین وقوانین کا فرض ہے کہ تمام حالات وواقعات کا درس ومطالعہ کر کے دستورالعمل مرتب کریں ان کے سامنے ملک وملت کی تمام مصالح ہوں اور جملہ مراتب واسباب پر ان کی نظر ہو مگر جب قانون بن جائے اور قانون ساز مجلس اس پر مہر تصدیق وتصویب لگا دے پھر اس کے نفاذ میں کسی قسم کی تخصیص و پاسداری نہ ہونی چاہئے ورنہ وہ ایک بےاثر ضابطہ بن کر رہ جائے گا ۔ اگر ایک مرد و عورت زنا کا ارتکاب کرتے ہیں ‘ عدالت میں ان کا مقدمہ پیش ہوتا ہے ‘ چار گواہ اپنی عینی شہادت سے اس جرم کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں یا مجرم خود ہی اقراری ہوجاتا ہے اور اعتراف گناہ کرلیتا ہے تو فاعل ومفعول کو سو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور اسی میں غریب و امیر کا کوئی لحاظ نہ کیا جائے گا اس لئے کی ادنی لوگوں کو سزا دینا اور ارباب دولت کو چھوڑ دینا دراصل بداخلاقی کو اور رواج دیتا ہے ، یہ صحیح ہے کہ دو آدمیوں پر کوڑے برسائے جا رہے ہوں اور تمہیں ان پر رحم آتا ہے لیکن اگر تم کو یہ یقین ہے کہ یہ قانون اللہ رب ذوالجلال والاکرام وعلام الغیوب کا بنایا گیا ہے تو یاد رکھو کہ صرف اور صرف اس پر عمل پیرا ہو کر اس بداخلاقی کو بیخ وبن سے اکھاڑا جاسکتا ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم ایک لمحہ کے لئے بھی ان بےحیاؤں اور بےغیرتوں پر رحم نہ کرو بلکہ تمہاری نظر ان لوگوں کی بےحیائی پر ہونی چاہئے جنہوں نے کھلے بندوں اس جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ کھلے بندوں چہ معنی دارد ؟ غور کرو کہ ایک جماعت انکو ایسا کرتے دیکھتی ہے اور چار شریف آدمی اپنی عینی شہادت سے صرف قابل اعتراض حالت ہی میں نہیں دیکھتے بلکہ ارتکاب جرم میں مصروف پاتے ہیں اور اس کی شہادت وہ دے رہے ہیں اور اس حقیقت کو وہ عدالت پر واضح کردیتے ہیں کہ ان کی یہ بےحیائی دوسروں کو بھی بےحیائی کی دعوت دے رہی ہے تو ایسے بےحیاؤں کو جو سزا ملے گی وہ کھلے میدان میں ملے گی جہاں مسلمانوں کی ایک جماعت اس وقت موجود ہوگی اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی کہ جو لوگ اس درجہ بےحیا اور بداخلاق ہوجائیں کہ وہ انسانوں کی صف سے نکل کر وحشی جانوروں کی صف میں کھڑے ہوجائیں ان کی سزا یہ ہے ، یقینا اس عبرتناک سزا کے بعد دوسروں میں ایسا کرنے کی ہمت پیدا ہی نہ ہو اور یقینا یہ اپنی حالت کو بھی آئندہ کے لئے درست کرلیں گے اور بلاشبہ یہ وحشی جانوروں سے نکل کر انسانی صف میں آکھڑے ہوں گے ۔ احادیث کی روشنی میں قاضی یا مجسٹریٹ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر وہ اس بات کی ضرورت محسوس کرے کہ اس شخص کو صرف سو کوڑوں کی سزا کافی نہیں ہے تو وہ ایک سال کی مدت تک کے لئے جیل بھجوا دے ۔ دنیا کی ہر قوم اور ہر معاشرہ میں زنا کو برا تسلیم کیا جاتا ہے تاہم اس کے جواز کی کوئی نہ کوئی صورت ہر قوم میں روا رکھی گئی ہے اور قانونا مستلزم سزا ہونے میں تو بہت ہی اختلاف ہوا ہے اسلام سے قبل جو مذاہب معروف تھے ان میں سب سے زیادہ اکثریت یہود کو تھی اور انہی کے ہاں سب سے زیادہ سخت قانون بھی تھا لیکن قانون کتاب اللہ یعنی تورات میں تھا اور شارحین یہود نے اس میں ترمیمات کر کے اور زمانہ کے حالات کے پیش نظر اس میں طرح طرح کی نرمیاں پیدا کردی تھیں تاکہ قوم کے برسرآوردہ لوگ خوش ہو کر ان پر انعامات کی بارش کرتے رہیں ۔ قانون کیا تھا ؟ اصل قانون تورات کی ایک کتاب میں اس طرح ہے کہ ” جو شخص دوسرے کی بیوی سے یعنی اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے وہ زانی اور زانیہ دونوں ضرور جان سے مار دیئے جائیں ۔ “ (احبار 20 : 10) ” اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں ۔ “ (استثناء 22 : 22) ” اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہوگئی ہو (یعنی کسی کی منگیتر ہو) اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پاکر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کردینا کہ وہ مر جائیں ۔ لڑکی کو اس لئے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلائی اور مرد کو اس لئے کہ اس نے اپنے ہمسائے کی بیوی کو بےحرمت کیا پھر اگر اس آدمی کو وہی لڑکی جس کی نسبت ہوچکی ہو کسی میدان یا کھیت میں مل جائے اور وہ آدمی جبرا اس سے صحب کرے تو فقط وہ آدمی ہی جس نے صحبت کی مار ڈالا جائے اس پر اس لڑکی سے کچھ نہ کرنا ۔ “ (استثناء 22 : 23 تا 26) اس قانون کی موجودگی میں ظاہر ہے کہ حاشیہ نویسیوں نے ترمیم کرکے ہی اس طرح تشریح کردی ہے کہ ” اگر کوئی آدمی کسی کنواری کو جس کی نسبت (یعنی منگنی) نہ ہوئی ہو پھسلا کر اس سے مباشرت کرے تو وہ ضرور ہی اسے مہر دے کر اس سے بیاہ کرلے لیکن اگر اس کا باپ ہرگز راضی نہ ہو کہ اس لڑکی کو اسے دے تو وہ کنواریوں کے مہر کے موافق اسے نقد دے دے “ (خروج 22 : 16 تا 17) ” اگر کسی آدمی کو کوئی کنواری لڑکی مل جائے جس کی نسبت نہ ہوئی ہو اور وہ اسے پکڑ کر اس سے صحبت کرے اور دونوں پکڑے جائیں تو وہ مرد جس نے اس سے صحبت کی ہو لڑکی کے باپ کو چاندی کے پچاس مثقال دے اور وہ لڑکی اس کی بیوی ہے کیونکہ اس نے اسے بےحرمت کیا اور پھر وہ اسے اپنی زندگی بھر طلاق نہ دینے پائے ۔ “ (استثناء 22 : 28 تا 29) آپ ان عبارات کو بغور پڑھیں گے تو یہ ساری صورتیں آج ہم مسلمانوں میں کسی نہ کسی رنگ میں موجود پائیں گے ۔ مثلا اس آخری بات کو جو خروج اور استثناء کے حوالے سے درج کی گئی ہے نہایت ہی بری نظر آتی ہے لیکن آج بھی ہو بہو اس بات پر عمل کیا کرایا جارہا ہے اور ہمارے سواد اعظم کے مفتی یہی فتوی دیتے ہیں کہ جب کوئی مرد کسی کنواری سے ملوث پایا جائے اور معلوم اس وقت ہو جب عورت حاملہ ہوجائے تو کیا کیا جائے ؟ مفتی صاحب کا فتوی ہے کہ جس مرد کے ساتھ وہ کنواری عورت ملوث ہوئی چونکہ اس کا حمل اس کو رہ گیا ہے لہذا اس مرد کے ساتھ اس کا نکاح کردیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ اسی کے ساتھ نکاح ہو اس لئے کہ دوسرے آدمی سے اس کا نکاح ہو نہیں سکتا جب تک اس کا حمل وضع نہ ہوجائے اور اس شخص کے ساتھ جس کا حمل ہے نکاح جائز ہے اس پر دوسری باتوں کو بھی قیاس کرلیں ۔
Top