Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 102
فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
فَلَوْ : پس کاش اَنَّ لَنَا : کہ ہمارے لیے كَرَّةً : لوٹنا فَنَكُوْنَ : تو ہم ہوتے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
کاش ! ہم کو پھرجانے کا موقع ملتا تو ہم مسلمان ہو جاتے
ان کی حسرت کا آخری کلمہ کہ کاش ہمیں ایک بار واپس جانے کی اجازت مل جاتی : 102۔ ان کی حسرت بھری کہانی جو انہوں نے اپنی زبانی سنانا شروع کی ہے اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے کہا جا رہا ہے کہ جب ان کے معبودان باطل ان کو دیکھ کر آنکھیں پھیر جائیں گے تو وہ ان کو پہچان کر ان کو مخاطب کرتے ہوئے خوب اپنے دل کی بھڑاس نکالیں گے اور ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے ‘ انکو مجرم قرار دیں گے جب ان کی سفارش کے لئے بھی کوئی آگے نہیں بڑھے گا اور کسی گہرے دوست کو ان کی حالت زار دیکھ کر بھی ان پر ترس نہیں آئے گا اور وہ عین مایوسی کی حالت میں آخری بات جو کہیں گے وہ یہ ہوگی کہ ” اے میرے رب ! مجھے اسی دنیا میں واپس بھیج دیجئے جسے میں چھوڑ آیا ہوں امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا ۔ “ (المومنون 23 : 99 ‘ 100) لیکن اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی طرف سے اس کو جواب دیا جائے گا کہ ” ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا یہ تو ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے “ (المومنون 23 : 100) یعنی ان لوگوں کو کبھی بھی واپس نہیں بھیجا جائے گا تاکہ وہ از سر نو عمل کرلیں اور ان لوگوں سے بیزار ہو لیں جیسے وہ ان کو دیکھ کر آج بیزار ہو رہے ہیں حالانکہ اب ان کو دو بار دنیا میں نہیں بھیجا جائے گا کیوں ؟ اس لئے کہ اس دنیا میں دوبارامتحان کے لئے آدمی کو اگر بھیجا جائے تو لامحالہ دو صورتوں میں سے ایک ہی صورت اختیار کرنی ہوگی یا تو اس کے حافظے اور شعور میں وہ سب مشاہدے محفوظ ہوں جو مرنے کے بعد اس نے کئے یا ان سب کو محو کرکے اسے پھر ویسا ہی خالی ذہن پیدا کیا جائے جیسا وہ پہلی زندگی میں تھا ۔ اول الذکر صورت میں امتحان کا مقصد فوت ہوجاتا ہے کیونکہ اس دنیا میں تو آدمی کا امتحان ہے ہی اس بات کا کہ وہ حقیقت کا مشاہدہ کئے بغیر اپنی عقل وفکر سے حق کو پہچان کر اسے مانتا ہے یا نہیں اور اطاعت ومعصیت کی آزادی رکھتے ہوئے ان دونوں راہوں میں سے کس راہ کا انتخاب کرتا ہے اب اگر اسے حقیقت کا مشاہدہ بھی کرا دیا جائے اور معصیت کا انجام عملا دکھا کر معصیت کے انتخاب کی راہ بھی اس پر بند کردی جائے تو پھر امتحان گاہ میں اسے بھیجنا فضول ہے اس کے بعد کون ایمان نہ لائے گا اور کون ہے جو منہ موڑے گا ، رہی دوسری صورت تو یہ آزمودہ را آزمودن کا ہم معنی ہے جو سراسر جہل ہے جو شخص ایک دفعہ اس امتحان میں فیل ہوچکا اسے پھر ویسا ہی ایک اور امتحان دینے کے بھیجنا وقت کا ضائع کرنا ہے کیونکہ وہ پھر وہی کچھ کرے گا جو پہلے کرچکا ۔ اس کی تفصیل پیچھے بہت سے مقامات پر گزر چکی ہے مثلا سورة الانعام کی آیت 27 ‘ 28 ‘ سورة الاعراف کی آیت 53 ‘ سورة ابراہیم کی آیت 44 ‘ 45 ‘ سورة المومنون آیات 105 تا 115 کو ملاحظہ کریں ۔
Top