Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 106
اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ
اِذْ قَالَ : جب کہا لَهُمْ : ان سے اَخُوْهُمْ : ان کے بھائی نُوْحٌ : نوح اَلَا : کیا نہیں تَتَّقُوْنَ : تم ڈرتے
جب ان کے بھائی نوح (علیہ السلام) نے ان سے کہا ، کیا تم ڈرتے نہیں
نوح (علیہ السلام) نے قوم کو مخاطب کر کے کہا کہ تم ڈرتے کیوں نہیں ؟ 106۔ زیر نظر آیت میں اگرچہ یہی بیان ہے کہ آپ نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ” کیا تم ڈرتے نہیں “ لیکن اس کی وضاحت تصریف آیات کے طور پر قرآن کریم نے دوسرے مقامات پر اس طرح کردی ہے کہ ” ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا اس نے کہا کہ اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ ہی کی بندگی کرو اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں میں ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے ہولناک دن کا عذاب تمہیں پیش نہ آجائے سورة ہود میں گزر چکا ہے کہ جس رسول کو بھی اس کی قوم کی طرف مبعوث کیا گیا تو نبی کو قوم کا بھائی ہی قرار دیا گیا کیونکہ نبی ورسول اور اس کی قوم میں اخوت اور نسبی بھائی چارہ موجود تھا کیونکہ ہر نبی اس قوم میں سے منتخب کیا گیا تھا اور وہ اپنی قوم کے لوگوں میں سے ایک آدمی اور بشر ہی تھا اور اس کی ساری رشتہ داریاں ان سے قائم تھیں ، جیسا کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کی رشتہ داریاں قریش مکہ کے ساتھ پائی جاتی تھیں ہمارے بھائی جو انبیاء ورسل کو قوم کے لوگوں کا بھائی کہنا اس جذبہ اخلاص وخیر خواہی کی طرف بھی اشارہ کرتا جو ایک بھائی کے دل میں اپنے کے متعلق فطری طور پر پایا جاتا ہے ، اس طرح بتا دیا کہ یہ کوئی اجنبی نہیں جسے تمہاری خوشی اور غم سے کوئی واسطہ نہ ہو بلکہ یہ تمہارا بھائی بند ہے تمہاری فلاح اور کامیابی اس کے لئے فرحت و انبساط کا باعث ہے اور تمہاری گمراہی سے اس کے دل میں درد و غم کی لہریں اٹھنے لگتی ہیں ، کیسی صاف اور ستھری بات تھی لیکن ضد میں آکر اس کو کیا ہے کیا بنا دیا گیا اللہ تعالیٰ ہدایت دے اور انبیاء ورسل کو اپنی ضد کا نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے ۔
Top