Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 118
فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَهُمْ فَتْحًا وَّ نَجِّنِیْ وَ مَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
فَافْتَحْ : پس فیصلہ کردے بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان فَتْحًا : ایک کھلا فیصلہ وَّنَجِّنِيْ : اور نجات دے مجھے وَمَنْ : اور جو مَّعِيَ : میرے ساتھی مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
پس تو میرے اور ان کے درمیان ایک کھلا فیصلہ فرما دے اور مجھے اور جو میرے ساتھ ایمان لانے والے ہیں ان کو بچا لے
نوح (علیہ السلام) نے کہا کہ اے رب ! میرے اور قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے : 118۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنے اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے سامنے اپنی عرض پیش کی اور اس میں فرمایا کہ اے میرے پروردگار ! اب تو میرے اور میری قوم کے درمیان آخری فیصلہ فرما دے ۔ نوح (علیہ السلام) نے یہ آخری فیصلہ اس وقت طلب کیا جب اللہ تعالیٰ نے خود نوح (علیہ السلام) کو اس بات سے آگاہ کردیا کہ ” اے نوح تیری قوم میں جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے سوا اب اور کوئی بھی ایمان لانے والا نہیں ہے اب ان کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑ دے ۔ “ (ہود 11 : 36) اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بعد آپ کو مکمل طور پر یقین ہوگیا کہ اب یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں تو آپ نے بدرگاہ رب ذوالجلال والاکرام عرض کیا کہ ” اے میرے رب ! ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑا اگر تو نے انکو چھوڑ دیا تو یہ لوگ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور کافر ہی پیدا ہوگا ۔ “ (نوح 71 : 26 ‘ 27) نوح (علیہ السلام) کی اس دعا کو بددعا نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی کوئی نبی ورسول کسی کے حق میں بددعا کرتے تھے ، نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے فیصلہ کی اپیل کی ہے اور نہ ماننے والوں کے متعلق وہی کہا ہے جس سے خود اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو آگاہ کیا تھا اور رسول نے یعنی نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ” ” اے اللہ ! تو میرے اور میری قوم کے لوگوں کے درمیان فیصلہ فرما دے اور مجھے اور جو مجھ پر ایمان لائے ہیں ان کو بچا لے ۔ “ گویا آپ نے دعا اس فتح ونصرت کے لئے فرمائی جو رسول کی تکذیب کی صورت میں لازما اس کی قوم کی ہلاکت اور رسول اور اس کے ساتھیوں کی نجات کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور جس طرح سنت اللہ اس معاملہ میں جاری وساری رہی ہے اور بلاشبہ اس کا نتیجہ بھی وہی نکلا جو دوسرے رسولوں کی دعوت کا نکلا ہے ۔
Top