Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 128
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً تَعْبَثُوْنَ
اَتَبْنُوْنَ : کیا تم تعمیر کرتے ہو بِكُلِّ رِيْعٍ : ہر بلندی پر اٰيَةً : ایک نشانی تَعْبَثُوْنَ : کھیلنے کو (بلا ضرورت)
کیا تم ہر اونچی زمین پر ایک نشان فضول بنایا کرتے ہو
اے قوم کیا تم ہر اونچی زمین پر ایک نشانی فضول بنایا کرتے ہو : 128۔ (ربیع) جمع ہے ریعۃ کی اور ہر ایک اونچی جگہ کو ریعۃ کہا جاتا جو دور سے نظر آتی ہو (غ) راستہ اور وادی کو بھی ریعہ کہا جاتا ہے ایہ سے مراد اس جگہ اونچی عمارت کے کئے گئے ہیں اور یہ اس لئے کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کا شیوہ یہ تھا کہ یہ لوگ بڑے بڑے آدمیوں کی یادگار میں بڑی بڑی لمبی چوڑی عمارتیں بنایا کرتے تھے اور ان عمارتوں کو ایہ کا نام دے رکھا تھا اس سے انکی غرض دراصل عرف اپنے نام کی نمود ونمائش تھی اور سمجھتے تھے کہ یہ بلند عمارتیں ہماری قومی اور مذہبی رفعت کا گویا نشان ہیں جیسے آج کل ہمارے ہاں روضے اور خانقاہیں تعمیر کی جاتی ہیں اور جس کو جتنا بڑا مذہبی وسیاسی راہنما سمجھتا جاتا ہے اتنی ہی اس کی یادگار کی عمارت بھی بلند وبالا متصور ہوتی ہے ۔ علی ہجویری کا شہر بھی لاہور ہے اور جگہ بھی کافی ہے اور عمارت بھی اس قدر بلند وبالا ہے جتنے وزراء وامراء ہیں سب اس جگہ جا کر سجدے کرتے ‘ چادریں چڑھاتے اور دیگیں پکا پکا کر تقسیم کرتے ہیں دراصل یہ سب لوگ اسی قوم عاد کی یاد تازہ کرتے ہیں اور قوم عاد کی طرح ان کو جتنا سمجھاؤ یہ لوگ اتنے ہی شرکیہ عقائد پر مزید پختہ ہوتے ہیں لیکن ہمارے علماء ومفسرین ہیں کہ ان عاد کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ان موجودہ عاد وثمود کو اپنے خدایان وملک سمجھتے ہیں ان کو خوش کرنے کے لئے ان کی طرف کبھی اشارہ نہیں کرتے ۔
Top