Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 145
وَ مَاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَمَآ اَسْئَلُكُمْ : اور میں نہیں مانگتا تم سے عَلَيْهِ : اس پر مِنْ اَجْرٍ : کوئی اجر اِنْ : نہیں اَجْرِيَ : میرا اجر اِلَّا : مگر عَلٰي : پر رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : رب العالمین
اور میں تم سے اس کا کوئی صلہ نہیں چاہتا ، میرا اجر تو میرے رب کے ذمہ ہے جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے
صالح (علیہ السلام) نے کہا میں تم سے اجر نہیں چاہتا میرا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے : 145۔ یہ اعلان بھی ان اعلانات میں سے ہے جو ہر نبی ورسول کی طرف سے کیا گیا ‘ دنیا میں کوئی کام ایسا نہیں جو انسان مفت سرانجام دے اور پھر دیتا ہی چلا جائے اور یہ بھی کہ جن لوگوں کے لئے سرانجام دے ان پر کچھ احسان بھی نہ رکھے اور اگر وہ کام لوگ اس کو سرانجام دے لینے دیں تو وہ ان کا مشکور بھی ہو ۔ انبیاء ورسل کے ذمہ ایک ایسا ہی کام لگایا گیا جس کو وہ ہمیشہ مفت سرانجام دیتے رہے اور اس پر تعجب کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے لئے انہوں نے وہ کام سرانجام دیا وہ ہمیشہ ہی ان سے ناخوش رہے اور نہ صرف یہ کہ ناخوش رہے بلکہ ان کے پئے آزار بھی رہے اور ان کو ساری زندگی سکھ کا سانس انہوں نے نہیں لینے دیا جیسا کہ پیچھے آپ پڑھتے چلے آرہے ہیں ، یہی اعلان صالح (علیہ السلام) نے بھی کیا کہ لوگوں میں جو کچھ تم کو دے رہا ہوں باوجود اس کے کہ وہ اتنی قیمتی چیز ہے کہ نہ صرف اس دنیا میں تمہارے کام آنے کی چیز ہے بلکہ تمہاری آخرت کو بھی سنوار دینے کی چیز ہے لیکن اس کے باوجود میں تم کو مفت پیش کر رہا ہوں نہ اس چیز کی کوئی قیمت وصول کر رہا ہوں اور نہ اس کے پیش کرنے کی کوئی مزدوری طلب کر رہا ہوں یہ بات کہ پھر میں آخر اس کو کیوں پیش کر رہا ہوں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس لئے پیش کر رہا ہوں کہ اس کے پیش کرنے کی ذمہ داری مجھ پر اللہ نے ڈالی ہے اور اس نے مجھے کہا ہے کہ میرے بندوں تک میرا پیغام پہنچا دو اس طرح میں صرف اور صرف اسی کا آجر ہوں اور میری اجرت بھی اسی کے ذمہ ہے گویا تم کو جو مفت پیش کر رہا ہوں تو وہ محض اس کے حکم پر ورنہ میری اجرت اور مزدوری تو اس کے ذمہ ہے جو یقینا مجھے وصول ہوگی ، اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ دین کی دعوت کو کوئی مفت بھی سننے کے لئے تیار نہیں چہ جائیکہ کوئی تنخواہ دے کر دین کی دعوت کو سنے یہی وجہ ہے کہ آج کسی جگہ سے بھی دین کی دعوت کا صحیح کام ہوتا نظر نہیں آتا اور دین کے نام پر جتنے ملازم ملازمت کر رہے ہیں وہ بڑے ہوں یا چھوٹے وہ دین کا کام نہیں کر رہے بلکہ لوگوں کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں جن کو انہوں نے دین کی ضروریات سمجھ لیا ہے ۔ غور کرو کہ اس وقت بڑے بڑے شہروں ‘ قصبوں ‘ گاؤں اور دیہات میں جو دین کا کام ہو رہا ہے وہ کس جگہ ہو رہا ہے ظاہر ہے کہ مساجد میں کیونکر مسجدوں کو عبادت خانوں کی حیثیت دی گئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ کے گھر ہیں حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے جس میں ایک رتی برابر بھی سچ نہیں کیوں ؟ اس لئے کہ اس وقت ہم مختلف مکاتب فکر میں تقسیم ہوچکے ہیں اور ہر گروہ کا دعوی ہے کہ وہ مسلمان ہے اور پھر سارے گرہوں کی اپنی اپنی مساجد ہیں اگر ہم سارے مسلمان ہیں تو یہ مساجد بھی اسب کی ہونی چاہئے تھیں لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسا نہیں معلوم ہوا کہ مساجد اسلام کی نہیں بلکہ مسجد ان کی ہے جس مسلک کے لوگوں نے اس کو تعمیر کرایا ہے اس لئے جتنے گروہ ہیں اتنی ہی قسم کی مسجدیں ہیں جو ہر گروہ کے نام سے معروف ہیں ۔ اس طرح ان کی وہ حیثیت جس حیثیت سے وہ اللہ کا گھر کہلاتی تھیں وہ ختم ہوگئی ۔ اس طرح وہ لوگ جو ان مساجد کے متعلق سمجھے گئے وہ اللہ کا کام کرنے والے نہ رہے بلکہ اس گروہ کا کام وہ کر رہے ہیں جس گروہ کی مسجد کے اندر وہ ملازم ہیں اب غور کرو کہ شہر سے لے کر دیہات تک یہی حال ہے یا نہیں ؟ پھر جس دین کی ساری قدریں بدل گئیں اسی طرح دین کے کام کی نوعیت بھی بدل گئی چونکہ ہر ایک فرقے کے لوگ مرتے ہیں اور پیدا ہوتے ہیں اور پھر ہر گروہ نے پیدا ہونے اور مرنے کے ساتھ کچھ رسومات اپنے اپنے طریقہ کے مطابق بنا رکھی ہیں محلہ میں جس ملک کے لوگ ہیں یا جس فکر کے لوگوں کا کنٹرول ہے یہ مسجد ہے ان کی یہ پیدا ہونے اور مرنے کی جتنی رسومات ہیں وہ سب اس آدمی کے ذمہ ہیں جو اس مسجد کے اندر خطیب ‘ امام یا خادم ہے ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لوگوں نے ملازم رکھے ہوئے ہیں اور ان کے ذمہ اس طرح کی ساری ڈیوٹیاں اور رسومات کو اسی طریق سے ادا کریں گے اور ان لوگوں سے تنخواہ وصول کریں گے اور ان کی یہ مکمل خدمات سرانجام دیں گے اگر یہ لوگ اللہ کا کام کریں تو نہ ان کو کوئی تنخواہ دے اور نہ ہی یہ لوگوں کی ان رسومات کی ادائیگی کریں ۔ اب تمہاری سمجھ میں شاید آجائے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی ورسول سے یہ اعلان کیوں کرایا کہ ” لوگو ! میں تم سے کوئی صلہ نہیں چاہتا میرا صلہ واجر تو میرے رب کے ذمہ ہے جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے “ گویا جس کا کام اس سے صلہ بالکل صحیح یہی وجہ ہے کہ ہم نے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرکے ان کا کام کیا اور ہمارا صلہ بھی انہیں کے ذمہ اور وہی ادا کرتے ہیں اگر ہم کام اللہ رب ذوالجلال والاکرام کا کرتے تو یہ لوگ ہم کو کیسے صلہ دے سکتے تھے صلہ تو وہی دیتا ہے جس کا کام کیا گیا ہو ۔
Top