Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 156
وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
وَلَا تَمَسُّوْهَا : اور اسے ہاتھ نہ لگانا بِسُوْٓءٍ : برائی سے فَيَاْخُذَكُمْ : سو (ورنہ) تمہیں آپکڑے گا عَذَابُ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : ایک بڑا دن
اور اس کو کوئی تکلیف نہ دینا ورنہ تم کو ایک بڑے (اور سخت) دن کا عذاب آپکڑے گا
صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ اس اونٹنی کو نہ چھیڑو اگر تم نے چھیڑا تو بس عذاب آیا : 156۔ صالح (علیہ السلام) نے اس اونٹنی کو بحکم الہی بطور نشان مقرر کرتے ہوئے قوم کے لوگوں میں اعلان کروا دیا کہ آج سے یہ اونٹنی جس کو تمہاری آنکھوں کے سامنے آج تک میں تبلیغ کے کام میں استعمال کرتا رہا ہوں اور جس کے متعلق تم کو کوئی شک وشبہ بھی نہیں کہ یہ اونٹنی کس کی ہے بلکہ تمہارا ہر ایک فرد جانتا اور پہچانتا ہے ‘ تمہارے لئے وہی نشان ہے جس کے تم طلب گر تھے ‘ تمہارے لئے بہتر ہے کہ اس کو کسی طرح کی کوئی گزند نہ پہنچاؤ اور نہ اس کے ساتھ برا سلوک کرو۔ ہاں ! اگر تم نے اس کے ساتھ کوئی ایسا برا سلوک کیا تو سمجھو کہ تمہیں عذاب الہی نے آلیا ۔ اس اونٹنی کے متعلق لوگوں نے بہت کچھ مبالغہ آرائی سے کام لیا اور اس کی پیدائش ‘ اس کی خوراک ‘ اس کی عبادت اور ہئیت ‘ اس کی شکل و صورت میں عجیب طرح کی کہانیاں گھڑی گئیں جن کی نہ کوئی اصل اور نہ کوئی حقیقت جس طرح رسول انسانوں میں سے ایک انسان ہوتا ہے ‘ انہیں میں پیدا ہوتا ہے ‘ انہیں میں پرورش پاتا ہے لیکن چونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نبوت و رسالت کے لئے مختص کردیتا ہے اور پھر اس کی زندگی اور لوگوں کی زندگی میں ایک خاص طرح کا فرق پایا جاتا ہے لیکن وہ کھاتا بھی ہے ‘ پیتا بھی ہے ‘ کماتا بھی ہے اور اسی طرح شادی بیاہ بھی کرتا ہے ‘ لوگوں ہی میں سے ہونے کے باوجود ایک خاص امتیاز اس کو حاصل ہوجاتا ہے لیکن لوگوں کے تخیل میں یہ بات چونکہ نسلا بعد نسل سرایت کرچکی ہے کہ نبی ورسول بشر نہیں ہوتا اس لئے ہر قوم نے یہ اعتراض کیا کہ تم تو بشر نظر آ رہے ہو تم کیسے رسول ہو سکتے ہو ؟ چناچہ یہی بات دوسرے انبیاء ورسل کی طرح صالح (علیہ السلام) سے بھی کہی گئی ۔ اس طرح اس اونٹنی کے متعلق یہ مشہور ہوگیا کہ ہو نہ ہو اس اونٹنی میں کوئی نہ کوئی اچنبھا کی بات تو ضرور ہوگی اور اس تخیل نے اس اونٹنی کا ایک خیالی وجود لوگوں میں قائم کردیا اور پھر جب ایک بات تحریر میں آگئی اور جو آیا اس نے مکھی پر مکھی ماری تو اب اس کو عام اونٹنی قرار دینا گویا کفر ہوگیا اور جب بھی کسی نے اس اونٹنی کے بارے میں عام اونٹنی یا صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کے الفاظ کہے تو وہ فتوی کی زد میں آگیا کہ لو دیکھو اس نے تو معجزہ ہی کا انکار کردیا تعجب ہے یہ تو کتاب وسنت کا بھی منکر ہے اور یہ ایسا اور ویسا ہے گویا جو کچھ نبی ورسول کو بشر ماننے والوں کو کہا جاتا تھا وہ سب کچھ انہوں نے جو نبی ورسول کو بشر مانتے تھے اس اونٹنی کو عام اونٹنی کہنے والوں کو کہہ دیا اس طرح گویا جو پتھر ان پر پھینکا گیا تھا وہی انہوں نے اٹھا کر دوسروں پر پھینک دیا ، یہاں تک کہ مودودی صاحب جیسے منجھے ہوئے لوگوں کو بھی یہ کہنا پڑا کہ ” معجزے کے مطالبے پر اونٹنی پیش کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض ایک عام اونٹنی نہ تھی جیسی ہر عرب کے پاس وہاں پائی جاتی تھی بلکہ ضرور اس کی پیدائش اور اس کے ظہور میں اور اس کی خلقت میں کوئی ایسی چیز تھی جسے معجزہ کی طلب پر پیش کرنا معقول ہوتا ۔ “ (تفہیم القرآن جلد سوم ص 524) ہم چونکہ اس کی وضاحت ایک سے زیادہ مقامات پر کرچکے ہیں اس لئے اس بحث کو نہیں چھیڑتے تفصیل مطلوب ہو تو سورة الاعراف آیت 77 ‘ 78 ‘ سورة ہود کی آیات 64 ‘ 65 ‘ صالح (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت عروۃ الوثقی جلد چہارم ص 624 ‘ سورة بنی اسرائیل کی آیت 59 کی تفسیر ملاحظہ کریں ۔
Top