Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 182
وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِۚ
وَزِنُوْا : اور وزن کرو بِالْقِسْطَاسِ : ترازو سے الْمُسْتَقِيْمِ : ٹھیک سیدھی
اور سیدھی ترازو رکھ کر تولا کرو
حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ دیکھو ترازو کو سیدھا رکھو اور پورا تولا کرو : 182۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے اس دنیا میں بڑی ترقی کرلی تھی لیکن اللہ رب ذوالجلال والاکرام سے غفلت ہو تو شیطان ہرچیز کے اندر گھس آتا ہے جس سے فساد پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ مجسمہ فساد ہے ان لوگوں کے اندر ناپ تول میں کمی کرنے کی بیماری پھیل گئی اور بدمعاشی فساد ایک شدید قسم کی متعدی بیماری ہے جب کسی قوم میں پیدا ہوجائے تو تقریبا ہر دکاندار اور ہر تاجر اس میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ بیماری اس طبقہ کے لوگوں کے لوگوں کی نس نس میں سرایت کر جاتی ہے اور ہر ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں بےچین رہتا ہے اگر غور کرو گے تو آج کل بھی بالکل یہی صورت حال ہو رہی ہے فرق صرف یہ ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر قرآن کریم میں کیا جا رہا ہے اور ہم اس سے بےپروا ہیں کہ جو کچھ بھی کریں گے کسی کتاب الہی میں ہمارا اس طرح تذکرہ نہیں ہوگا اور ہمیں علمائے کرام اور مفسرین عظام یہ نہیں بتلاتے کہ یہ بیان صرف حضرت شعیب (علیہ السلام) ہی کی قوم کا نہیں بلکہ دراصل ہماری قوم کا ہے کیونکہ ہم کو باز رکھنے کے لئے ہی تو یہ بیان کیا جا رہا ہے ورنہ اب اس کے بیان کرنے کا کوئی فائدہ ؟ شعیب بھی گئے اور آپ کی قوم بھی اب اس تذکرہ کی ضرورت ؟ بلاشبہ ان تذکار کی ضرورت ہی یہ تھی کہ دیکھو گزشتہ امتوں نے کیا کیا اور اس کے نتیجہ سے وہ دوچار ہوئیں اگر تم نے انہیں امتوں کی پیروی کی اور ویسے ہی کام کئے تو تمہارا انجام بھی بالکل وہی ہوگا اور آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم انہیں کے نقش قدم پر چل رہی ہے بلکہ ان قوموں کی انفرادی بیماریوں کا ہماری قوم مجموعہ ہے اور ہر معاملہ میں ان کو پیچھے چھوڑ رہی ہے اور کم تولنا ‘ کم ماپنا چیزوں میں کھوٹ ملانا ‘ دھوکا و فریب کرنا ‘ ذخیرہ اندوزی کرنا ‘ نمبر 2 کو نمبر 1 کہہ کر فروخت کرنا اور ہر دوسرے کو فریب دے کر خوش ہونا ہمارے روز مرہ کے معمولات میں نہیں ہے ؟ جب ایک طرف یہ ہے کہ تو دوسری طرف ہمارے عذاب میں مبتلا ہونے میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں فرق یہ ہے کہ وہ قومیں محدود علاقوں میں آباد تھیں اس لئے ان پر جب کوئی آفت آتی اور عذاب مسلط کیا جاتا تو وہ واضح ہوجاتا ہماری وسعت کے پیش نظر جب کسی علاقہ میں ہمارے ہی اعمال کے باعث کوئی صورت ایسی واقعہ ہوتی ہے تو ہم اس کو سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں اگر ہم میں کوئی زیادہ ہی رقیق قلب ہے تو وہ منہ سے ایک دو بار توبہ توبہ کہہ دیتا ہے اور جس بداخلاقی میں وہ لگا ہوتا ہے اس کو جاری رکھتا ہے ۔ کیا ہم روزانہ زلزلوں ‘ طوفانوں ‘ سیلابوں ‘ ڈکیتیوں ‘ دھماکوں ‘ اور قتلوں کی خبریں نہیں پڑھتے ؟ کیا یہ عذاب الہی نہیں ہے ؟ ۔
Top