Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 195
بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍؕ
بِلِسَانٍ : زبان میں عَرَبِيٍّ : عربی مُّبِيْنٍ : روشن (واضح)
شگفتہ عربی زبان میں
اس کی زبان عربی مبین ہے یعنی خود بخود واضح ہے : 195۔ مطلب یہ ہے کہ اس کو قلب رسول پر نازل کرنے کا کوئی یہ مطلب نہ سمجھے کہ اس کے الفاظ نبی کریم ﷺ کے اپنے تھے ہرگز نہیں بلکہ اس کے الفاظ ہی آپ ﷺ کے دل پر نازل کئے گئے تھے گویا یہ رسول کا بیان کردہ مفہوم نہیں بلکہ الفاظ ہیں اور یہی اس کلام کے معجزانہ ہونے کی دلیل ہے اور یہی ” مبین “ کی وضاحت ہے اس پر مزید غور کرنے کے لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول قرآن کریم کی عبارت کے علاوہ بھی بولتا تھا نہ کہ کوئی باجا تھا کہ جب اللہ میاں نے چاہا اس کا بٹن آن کردیا پھر دونوں کلاموں کو آج بھی ایک دوسرے کے سامنے رکھ کر دیکھ لیا جائے تو کبھی دونوں کلام ایک جیسے نہیں ہو سکتے اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم کی عربی زبان نبی کریم ﷺ کی عربی زبان سے بالکل جدا اور الگ الگ ہے جو کسی دوسرے انسان میں یہ بات نہیں پائی گئی نہ اس وقت جب اس قرآن کریم کا نزول ہوا اور نہ اس کے بعد جب کہ عربی زبان اس وقت بھی بولی جاتی تھی اور اب بھی بولی جاتی ہے ، یہ ان لوگوں کے لئے ایک چیلنج ہے جو یہ بحث کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی کچھ آیات ایسی تھیں جن کی تلاوت منسوخ کی گئی حالانکہ وہ قرآن کریم میں پہلے پڑھی جاتی تھیں اور پھر ہمارے علماء اس کو معرکہ بنا کر ان رویات پر جرح قدح شروع کردیتے ہیں اور راویاں کی بحث میں ایک دوسرے کا رد کرتے رہتے ہیں اور ان راویوں کے کیڑے نکالتے رہتے ہیں کوئی کسی راوی کو ضعیف قرار دیتا ہے اور کوئی کسی کو اور ایک ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو آج تک نہ ختم ہوا اور نہ ہی قیامت تک ہوگا حالانکہ قرآن کریم کو پیش نظر رکھ کر آج بھی ان عبارات کو ملا کر پڑھ دیا جائے تو وہ خود بخود انکار کردیتی ہیں کہ ہم قرآن کریم نہیں بلکہ غیر قرآن ہیں ، لیکن چونکہ اس طرح گھوڑے کے دانتوں کی بحث ختم ہوجاتی ہے اور ہمارے دینی مدارس میں یہی بحثیں پڑھائی جاتی ہیں اور نقلی دلائل پیش کئے جاتے ہیں اور جو شخص گھوڑے کو پکڑ کر میدان میں لے آئے کہ صاحبو ! وقت ضائع نہ کرو یہ دو تین گھوڑے ہیں ان کے دانت خود گن لو اور اس بحث کو اس جگہ ختم کر دو تو بحث کرنے والے سارے فریق اس گھوڑے کو لا کر پیش کرنے والے پر پل پڑتے ہیں اور وہ مار دیتے ہیں کہ الامان والحفیظ پھر جب ذرا بات ٹھنڈی ہوتی ہے تو اس وقت گھوڑا بھاگ چکا ہوتا ہے اور گھوڑا لانے والا دم توڑ رہا ہوتا ہے اور اس سے بحث شروع ہوجاتی ہے کہ آیا اس نالائق کو جنازہ جائز ہے یا ناجائز تاکہ اس کے مرنے سے پہلے پہلے اس کا فیصلہ کر لیاجائے پھر جب وہ سارے ہی مارنے والے ہیں تو اس کے جنازہ کو آخر کیوں جائز قرار دیں گے اور اس طرح جو ہوگا وہ آپ کو بھی معلوم ہے اور ہم بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ اے اللہ ! ان مفتیان دین متین سے ہماری خلاصی فرما تجھے تیری ربوبیت کا واسطہ ہماری دعا منظور فرما ۔
Top