Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 196
وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَفِيْ : میں زُبُرِ : صحیفے الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (پیغمبر)
اور بلاشبہ اس کا ذکر پہلی کتابوں میں بھی موجود ہے
اور بلاشبہ قرآن کریم تو پہلے صحائف میں بھی موجود ہے ۔ 196۔ قرآن کریم نے ایک بار نہیں بار بار یہ بیان کیا ہے کہ میری تعلیم اور میرا پیغام کوئی نیا پیغام نہیں ہے بلکہ یہ خالصتا وہ پیغام ہے جو پہلے انبیاء ورسل لے کر آئے تھے لیکن تم لوگوں نے اس میں کمی بیشی کردی اور میرا کام اس کمی بیشی کو دور کرنا ہے جو تم لوگوں نے اپنی طرف سے کی تھی نہ کہ گزشتہ انبیاء ورسل کی صداقتوں کی مخالفت ، تم میرے مخالف کیوں ہو ؟ محض اس لئے کہ تم کو تمہاری اور تمہارے آباء و اجداد کی اس کمی بیشی کی وضاحت تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں کہ یہ میرے سے پہلے آنے والے انبیاء ورسل کی تعلیم نہیں اور انہوں نے تم کو یہ پیغام نہیں دیا بلکہ تم نے خود اپنی طرف سے دین میں داخل کرلیا ہے یا انبیاء ورسل کے لائے ہوئے دین کی جگہ اس کو قائم کرلیا ہے لہذا میرا پیغام کوئی نیا پیغام نہیں اور جو کچھ میں کتاب اللہ یعنی قرآن کریم میں وحی الہی بیان کر رہا ہوں وہ بالکل وہی ہے جو مجھ سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) ورسل نے بیان کی تھی لہذا وہ اپنے ماننے والوں کو اسی طرح حکم دیتا ہے کہ : (آیت) ” قُولُواْ آمَنَّا بِاللّہِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالأسْبَاطِ وَمَا أُوتِیَ مُوسَی وَعِیْسَی وَمَا أُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِن رَّبِّہِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ أَحَدٍ مِّنْہُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ (البقرہ 2 : 136) ” مسلمانو ! تم کہو کہ ہمارا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں قرآن کریم پر ایمان لائے ہیں جو ہم پر نازل ہوا ہے ‘ ان تمام تعلیموں پر ایمان لائے ہیں جو ابراہیم کو اسمعیل کو ‘ اسحاق کو ‘ یعقوب کو اور ان کی اولادوں کو دی گئیں نیز ان کتابوں پر جو موسیٰ ‘ عیسیٰ کو دی گئی تھیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان تمام تعلیموں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو دنیا کے دوسروے نبیوں کو انکے پروردگار سے ملی ہیں ہم اس میں سے کسی ایک کو بھی دوسری سے جدا نہیں کرتے اور ہم سب اللہ رب کریم کے فرمانبردار ہیں۔ “ پھر اس نے مزید فرمایا کہ : (آیت) ” قُلْ آمَنَّا بِاللّہِ وَمَا أُنزِلَ عَلَیْْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِیَ مُوسَی وَعِیْسَی وَالنَّبِیُّونَ مِن رَّبِّہِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ أَحَدٍ مِّنْہُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ (آل عمران 3 : 84) ” اے پیغمبر اسلام ! ﷺ تم کہہ دو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور جو کچھ ابراہیم ‘ اسمعیل ‘ اسحاق ’ یعقوب اور ان کی اولادپرنازل ہوا اس پر ایمان رکھتے ہیں نیز جو کچھ موسیٰ کو ‘ عیسیٰ کو اور اللہ تعالیٰ کے دوسرے نبیوں کو اللہ کی طرف سے ملا ہے اس سب پر بھی ہمارا ایمان ہے ہم ان رسولوں میں سے ایک کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کرتے اور ہم سب اللہ رب کریم کے فرمانبردار ہیں۔ “ اور ایک جگہ اس طرح ارشاد فرمایا : (آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلَی رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِیَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن یَکْفُرْ بِاللّہِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْداً (النسائ 4 : 136) ” مسلمانو ! اللہ پر ایمان لاؤئ ‘ قرآن کریم پر ایمان لاؤ ‘ اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے نیز ان کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل کی گئی تھیں اور دیکھو جس کسی نے اللہ تعالیٰ سے انکار کیا اور اس کے فرشتوں ‘ اس کی کتابوں ‘ اس کے رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان نہ رکھا تو وہ بھٹک کر سیدھے راستہ سے بہت دور جا پڑا ‘ ۔ یہ آیات کریمات اور ان جیسی دوسری آیات سے واضح ہوگیا کہ قرآن کریم میں وہی کچھ بیان ہوا ہے جو گزشتہ اللہ کی کتابوں میں بیان کیا گیا تھا اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ جو کچھ گزشتہ کتابوں کے ماننے والوں نے اپنی طرف سے ان کتابوں میں داخل کردیا ہے وہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھا اس لئے اس کو چھوڑ دیا گیا لہذا یہ کتاب قرآن کریم گزشتہ صحیفوں میں من حیث المضمون موجود تھا اور موجود ہے اور دوسرے لفظوں میں اس کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ جو کچھ گزشتہ کتابوں میں کے ماننے والوں لوگوں کی تحریفات سے بچا تھا وہ سب کا سب قرآن کریم میں موجود ہے اور اگر کوئی چیز اس میں موجود نہیں ہے تو وہ صرف اس لئے کہ اس میں لوگوں نے تحریف کرلی تھی ، اگر ان تعلیمات میں سرمو بھی فرق ہوتا تو قرآن کریم کا یہ دعوی ہی غلط ہوجاتا کہ میں سارے نبیوں کی دعوتوں کو ماننے کی تعلیم دیتا ہوں کیونکہ مختلف چیزوں کی دعوتوں کو بیک وقت کیسے مانا جاسکتا ہے وہ صحیح ہیں ؟ مثلا ایک چیز کو ایک نبی حلال کہے اور دوسرا حرام تو ہم ان دونوں کے ساتھ کیسے متفق رہ سکتے ہیں ظاہر ہے کہ ایک کے مخالف ہوں گے یا حرام کہنے والے کے یا حلال کہنے والے کے ، اس لئے ضروری ہے کہ جس چیز کو ایک نبی نے حرام کیا ہے ہر آنے والا نبی ورسول اس کو حرام ہی کہے خواہ اس کے ماننے والوں نے اس کے بعد حلال ٹھہرا لیا ہو اور اس کے ذمہ لگا دیا ہو کہ ہمارے نبی نے یہ کہا تھا تو لاریب اس نبی کے ماننے والوں کا یہ دعوی صحیح نہیں ہوگا کہ انکے نبی نے اس کو حلال ٹھہرایا اور اس طرح اس نبی کے ماننے والوں کے دعوی کی تکذیب اس نبی کی تکذیب نہیں ہوگی بلکہ اس کی تصدیق ہوگی ، کاش کہ یہ اصل ہمارے مفسرین اور قارئین کی سمجھ میں آجائے اور پوری انسانیت کے لئے کل بنوا ادم اخوۃ کے جملہ کو سمجھنا آسان ہوجائے ۔ یہی وہ اصل عظیم ہے جو قرآن کریم کی سب سے پہلی بنیاد ہے اور جو کچھ بھی بتلانا چاہتا ہے تمام ترا سی اصل پر مبنی ہے اگر اس اصل سے یہ واقعہ بھی سمجھنا چاہئے کہ جس درجہ قرآن کریم نے اس اصل پر زور دیا اتنا ہی زیادہ ” دنیا “ کی نگاہوں نے اس سے اعراض کیا حتی کہ کہا جاسکتا ہے کہ آج قرآن کریم کی کوئی بات بھی ” دنیا “ کی نظروں سے اسی درجہ پوشیدہ نہیں ہے جس قدر کہ یہ اصل عظیم ۔ اگر ایک شخص ہر طرح کے خارجی اثرات سے خالی الذہن ہو کر قرآن کریم کا مطالعہ کرے اور اس کے صفحات میں جگہ جگہ اس اصل عظیم کے قطعی اور واضح اعلانات پڑھے اور پھر ” دنیا “ کی طرف نظر اٹھائے جو قرآن کریم کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں سمجھتی کہ بہت سی مذہبی گروہ بندیوں کی طرح وہ بھی ایک مذہبی گروہ بندی ہے تو یقینا وہ حیران ہو کر پکار اٹھے گا کہ یا تو اس کی نگاہیں اسے دھوکا دے رہی ہیں یا ” دنیا “ ہمیشہ آنکھیں کھولے بغیر ہی اپنے فیصلے صادر کردیا کرتی ہے ، میں نے ڈر کر اس پیرا میں ” دنیا دنیا “ کا لفظ استعمال کیا ہے آپ اس ” دنیا “ کی بجائے ” علمائے کرام “ یا ” پیروان مذاہب “ کا لفظ اگر لگالیں تو بات زیادہ واضح اور زیادہ صاف ہوجائے گی ۔ ہاں ! آپ نے اگر ہمت کرلی ہے تو میں آپ کو مزید کہوں گا کہ ذرا مزید غور کرلیں ۔ قرآن کریم کا اعلان یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بانی مذہب نہیں بھی ایسا نہیں ہوا ہے جس کو میں نے پانی مذہب بنا کر بھیجا ہو اور اس نے لوگوں کو دین پر اکھٹے رہنے اور تفرقہ واختلاف سے بچنے کی تعلیم نہ دی ہو ۔ لاریب سب کی تعلیم یہی تھی کہ اللہ کا دین بچھڑے ہوئے انسانوں کو جمع کردینے کے لئے ہے الگ الگ کردینے کے لئے نہیں ہے پس ایک پروردگار عالم کی بندگی ونیاز میں سب متحد ہو جاؤ اور تفرقہ ومخاصمت کی جگہ باہم محبت ویک جہتی کی راہ اختیار کرو۔ اس سلسلہ میں اس کا اعلان یہ ہے کہ (آیت) ” وان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاتقون “۔ (المومنون 23 : 52) ” اور یہ تمہاری امت فی الحقیقت ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں پس میری نافرمانی سے بچو۔ “ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ہی جامہ انسانیت دیا تھا لیکن تم نے طرح طرح کے بھیس اور نام اختیار کر لئے اور رشتہ و انسانیت کی وحدت سینکڑوں ٹکڑوں میں بکھر گئی ۔ تمہاری نسلیں بہت سی ہیں اس لئے تم نسل کے نام پر ایک دوسرے سے لڑ رہے ہو تمہاری قومیتیں بیشمار ہیں اس لئے ہر قوم دوسری قوم سے دست و گریبان ہو رہی ہے ‘ تمہارے رنگ یکساں نہیں اور یہ بھی باہمی نفرت وعناد کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا تمہاری بولیاں مختلف ہیں اور یہ بھی ایک دوسرے سے جدا رہنے کی بہت بڑی حجت بن گئی ہے پھر اس کے علاوہ امیر و فقیر ‘ نوکر وآقا ‘ وضیع وشریف ‘ ضعیف وقوی ‘ ادنی واعلی بیشمار اختلافات پیدا کر لئے گئے ہیں اور سب کا منشا یہی ہے کہ ایک دوسرے سے جدا ہوجاؤ اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہو۔ ایسی حالت میں بتلاؤ وہ رشتہ کونسا رشتہ ہے جو اتنے سارے اختلافات رکھنے پر بھی انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دے اور اس طرح انسانیت کا بکھرا ہوا گھرانا پھر آباد ہوجائے ؟ وہ کہتا کہ اس کا حل صرف اور صرف ایک ہی رشتہ ہے اور وہ خدا پرستی اور خدا شناسی کا مقدس رشتہ ہے کہ تم کتنے ہی الگ الگ ہوگئے ہو لیکن تمہارے رب تو الگ الگ نہیں ہوگئے تم سب کے سب ایک ہی پروردگار کے بندے ہو ‘ تم سب کی بندگی ونیاز کے لئے ایک ہی معبود کی چوکھٹ ہے ‘ تم بیشمار اختلاف رکھنے پر بھی ایک ہی رشتہ عبدیت میں جکڑے ہوئے ہو۔ تمہاری کوئی نسل ہو ‘ تمہارا کوئی وطن ہو ‘ تمہاری کوئی قومیت ہو ‘ تم کسی درجے میں اور کسی حلقے کے انسان ہو لیکن جب ایک ہی پروردگار کے آگے سر نیاز جھکا دیا تو یہ آسمانی رشتہ تمہارے سارے ارضی اختلافات مٹا دے گا تم سب کے بچھڑے ہوئے دل ایک دوسرے سے جڑ جائیں گے تم محسوس کرو گے کہ تمام دنیا تمہارا وطن ہے ‘ تمام نسل انسان تمہارا گھرانا ہے اور تم سب ایک ہی رب العلمین کے عیال ہو۔ وہ پکارتا ہے کہ لوگو ! اللہ رب کریم کے جتنے رسول بھی پیدا ہوئے سب کی تعلیم یہی تھی کہ (الدین) پر یعنی بنی نوع انسانی کے ایک ہی عالمگیر دین پر قائم رہو اور اس راہ میں ایک دوسرے سے الگ الگ نہ ہوجاؤ ۔ (آیت) ” شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحاً وَالَّذِیْ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ وَمَا وَصَّیْْنَا بِہِ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسَی وَعِیْسَی أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیْہِ (الشوری 42 : 13) ” اور اس نے تمہارے لئے دین کی وہی راہ قرار دی ہے جس کی وصیت نوح کو کوئی گئی تھی اور جس پر چلنے کا حکم ابراہیم ‘ موسیٰ ‘ اور عیسیٰ کو دیا تھا ان سب کی تعلیم یہی تھی کہ (الدین) قائم رکھو اور اس راہ میں الگ الگ نہ ہوجاؤ ۔ “ اس دلیل کے ورطے وہ اس بات پرزور دیتا ہے کہ اگر تمہیں میری تعلیم کی سچائی سے انکار ہے تو کسی مذہب کی الہامی کتاب سے بھی ثابت کر دکھاؤ کہ دین حقیقی کی راہ اس کے سوا کچھ اور بھی ہے یا ہو سکتی ہے تم جس مذہب کی بھی حقیقی تعلیم کو دیکھو گے اصل وبنیاد یہی ملے گی ۔ (آیت) ” قُلْ ہَاتُوا بُرْہَانَکُمْ ہَذَا ذِکْرُ مَن مَّعِیَ وَذِکْرُ مَن قَبْلِیْ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَہُم مُّعْرِضُونَ (24) وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِیْ إِلَیْْہِ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (الانبیائ : 21 : 24 ‘ 25) ” اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ان سے کہہ دو (اگر تم کو میری تعلیم سے انکار ہے تو) اپنی دلیل پیش کرو یہ تعلیم موجود ہے جس پر میرے ساتھ یقین رکھتے ہیں اور اس طرح وہ تمام تعلی میں بھی موجود ہیں جو مجھے پہلے قوموں کو دی گئیں (تم ثابت کر دکھاؤ کس نے میری تعلیم کے خلاف تعلیم دی ہو) اصل یہ ہے کہ ان (منکرین حق) میں اکثر آدمی ایسے ہیں جنہیں سرے سے امر حق کی خبر ہی نہیں اور اس لئے حقیقت کی طرف سے گردن موڑے ہوئے ہیں (اے پیغمبر اسلام ! ﷺ یقین کیجئے) ہم نے تجھ سے پہلے کوئی پیغمبر بھی ایسا نہیں بھیجا ہے جسے اس بات کے سوا کوئی دوسری بات بتلائی گئی ہو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری ہی عبادت کرو۔ “ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ کہتا ہے کہ علم وبصیرت کے کسی قول اور روایت ہی سے تم ثابت کر دکھاؤ کہ جو کچھ میں مبتلا رہا ہوں یہی تمام گزشتہ دعوتوں کی تعلیم نہیں رہی ہے (آیت) ” ایتونی بکتب من قبل ھذا اواثرۃ من علم ان کنتم صدقین “۔ (الاحقاف 46 : 4) ” اگر تم اپنے انکار میں سچے ہو تو ثبوت میں کوئی کتاب پیش کرو جو اس سے پہلے نازل ہوئی ہو یا کم از کم علم وبصیرت کی کوی گذشتہ روایت ہی لا دکھاؤ جو تمہارے پاس موجود ہو۔ لیکن کیا کوئی سامنے آیا ؟ نہیں اور یقینا نہیں تو اب بھی وقت نکل تو نہیں گیا کسی کے پاس اس ” دنیا “ میں ابھی کوئی دلیل ہے تو وہ پیش کرے ۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے سوانح پر نظر کرنے سے بھی اس کی پوری تصدیق ہوتی ہے کہ ایک صاحب شریعت رسول کے بعد دوسرا صاحب شریعت رسول اسی وقت مبعوث ہوا ہے جبکہ پہلا صحیفہ ‘ وحی جو دین و شریعت کا محافظ تھا کھو گیا یا انسانی دست برد سے ایسا بدل گیا کہ اس کی اصلیت مشتبہ ہوگئی ، صحیفہ ابراہیم کے گم ہوجانے کے بعد جس کا نہایت ناقص خلاصہ تورات کے سفر تکوین میں ہے صحیفہ موسیٰ نازل ہوا صحیفہ موسیٰ میں نوپید اختلافات کو دور کرنے کے لئے زبور وغیرہ مختلف صحیفے آتے رہے پھر انجیل آئی اور انجیل میں انسانی تصرفات کی راہ پانے کے بعد قرآن کریم آیا چونکہ قرآن دنیا میں آخر تک کے لئے آیا ہے اس لئے ہر تحریف اور انسانی تصرفات سے اس کی مکمل طور پر حاظت کی گئی اور یہ حفاظت اس کی قیامت تک کی جائے گی اس لئے اس کے بعد کسی اور صحیفے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کسی پیغمبر کی بعثت کی حاجت البتہ اس کے معافی کی صحیح تشریح اور بدعات واحد اثات کے انسداد کے لئے راسخین فی العلم پیدا ہوتے رہے ‘ ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے جب تک اس دنیا کا نظام قائم ہے ۔ وحدت دین کی حقیقت کو وحی اسلامی کے آخری ترجمان نے اس طرح بیان فرمایا ہے جیسا کہ ہم اوپر بھی عرض کرچکے ہیں وہ کہتا ہے ” اس نے دین میں تمہارے لئے وہی راہ مقرر کی جو نوح کے لئے کی تھی اور ہم نے تیرے پاس جو حکم بھیجا اور جو کہہ دیا ہم نے ابراہیم سے موسیٰ اور عیسیٰ سے ‘ یہ کہ دین کو قائم رکھ اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو مشرکین کو جدھر تو بلاتا ہے وہ ان پر گراں گزرتا ہے اللہ رب کریم اپنی طرف جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے اور اپنی طرف اور اپنی طرف سے اس کو راہ دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع ہوتا ہے اور یہ سارے تفرقے لوگوں نے وحی کا علم حقیقی ملنے کے بعد آپس کی ضد اور تعصب سے پیدا کر لئے ہیں اور اگر تیرے رب کو ان اگلوں کے بعد کتاب وراثت میں ملی وہ اس امر حق کی طرف سے ایسے شکل میں ہیں جو انکو چین نہیں لینے دیتا سو تو اے پیغمبر اسلام ! ﷺ سب کو حقیقت کی طرف بلا اور اس پر استواری سے قائم رہ جیسا کہ تجھ کو حکم دیا گیا ہے اور ان تفرقہ اندازوں کی غلط خواہشوں کی پیروی نہ کر اور کہہ کہ میں ایمان لایا ہر اس کتاب پر جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں ‘ ہمارا رب اور تمہارا رب وہی ایک اللہ ہے ہم کو ہمارے کاموں کا بدلہ ملے گا اور تم کو تمہارے کاموں کا ‘ ہم میں اور تم میں کچھ جھگڑا نہیں ۔ اللہ سب کو اکٹھا کرے گا اور اس کی طرف پھرجانا ہے ۔ “ (الشعراء 43 : 13 تا 15) اس مضمون کو جتنا پھیلانا چاہیں پھیلاتا جائے گا لیکن ہمارے پاک کم مائیگی کے سوا ہے ہی کیا کہ اس کی تفصیل کرتے ہی جائیں ہم نے کوشش ہے کہ جہاں اس طرح کی آیات آئی ہیں وہیں ان کی تشریح کردی جائے اور بحمد اللہ جہاں تک کر پائے کیا۔ اس وقت بھی ہمارے پیش نظر صرف یہ بات تھی کہ ایک بار پھر ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ قرآن کریم کوئی اجنبی کتاب نہیں بلکہ اس کا تعارف انسانی ابتداء ہی سے شروع ہوگیا تھا جو انسانی انتہا تک ساتھ ساتھ جاری وساری رہے گا لیکن جن لوگوں کو بھول جانے کا مرض لاحق ہوچکا ہو ان کو بار بار کا تعارف بھی کام نہیں دیتا اور آج ہماری مجموعی حالت ایسی ہی ہے ۔ اللہ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے ۔
Top