Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 33
وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ۠   ۧ
وَّنَزَعَ : اور اس نے کھینچا (نکالا) يَدَهٗ : اپنا ہاتھ فَاِذَا هِىَ : تو ناگاہ وہ بَيْضَآءُ : چمکتا ہوا لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور جب اپنا ہاتھ نکالا تو ناگہاں دیکھنے والوں کے لیے سفید تھا
موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا نشان بھی دکھا دیا : 33۔ اس دوسرے نشان کا ذکر جہاں بھی کہا گیا وہ انہی الفاظ (بیضآئ) سے کیا گیا اور ہاتھ کے سفید ہونے اور لاٹھی کے سانپ بننے کے مفہوم کو ہم سورة طہ میں بڑی وضاحت سے بیان کرچکے ہیں اس لئے بار بار اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ، سورة طہ کی آیات 17 تا 22 اور 65 تا 70 میں پوری وضاحت گزر چکی ہے اس پر ایک بار دوبارہ نظر ڈال لیں ۔ فرعون نے اوپر جو سانپ نکالنے کی دعوت دی تھی وہ اس کے گلے کا ہار بن کر رہ گئی بات تو وہ کر بیٹھا لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اس کو ایسا شکنجہ چڑھایا کہ جس سے یقینا مر کر ہی اس نے جان چڑھائی ۔ یہ دونوں دلائل اتنے وزنی تھے کہ ان کے سامنے فرعونی حکومت کا سارا بھرم کھل کر سامنے آگیا اور اب فرعون کے پاس صرف اور صرف ایک ہی راہ رہ گئی کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو حکومت کا غدار قرار دے کر گلو خلاصی کرائے کیونکہ وہ سمجھ گیا کہ دلائل کے لحاظ سے اس کا کوئی جواز موجود نہیں کہ اس طرح کی حکومت وہ کرسکے بلکہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ حکومت کا حق بنی اسرائیل کو ہے فرعونیوں کو نہیں اور ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص دلائل سے کام نہ چلا سکے تو اس کے پاس ایک رہ باقی رہ جاتی ہے کہ اگر اس کے پاس طاقت ہے تو وہ طاقت استعمال کرے اور اس کے بعد فرعون نے بھی یہی پالیسی اختیار کی اور اس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر ماہر جادوگر کا الزام دیا یعنی یہ دونوں بہت ماہر اور چالاک دھوکا باز ہیں ‘ جادو کیا ہے ؟ دھوکا اور فریب کا دوسرا نام جادو یا سحر ہے ۔
Top