Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 4
اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ اٰیَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِیْنَ
اِنْ نَّشَاْ : اگر ہم چاہیں نُنَزِّلْ : ہم اتار دیں عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے اٰيَةً : کوئی نشانی فَظَلَّتْ : تو ہوجائیں اَعْنَاقُهُمْ : ان کی گردنیں لَهَا : اس کے آگے خٰضِعِيْنَ : پست
اگر ہم چاہیں تو آسمان سے ان پر ایسی نشانی اتار دیں کہ ان کی گردنیں اس کے سامنے جھکی (کی جھکی) رہ جائیں
اگر ہم چاہیں تو آسمان سے ان پر کوئی نشان اتار دیں تاکہ ان کی گردنیں جھک جائیں : 4۔ (اعناق) عنق کی جمع ہے جس کے معنی گردن کے ہیں اور عام بول چال میں (اعناق) ان لوگوں کو بھی کہا جاتا ہے جو قوم میں سربرآوردہ لوگ ہوں چوہدری یا سردار ‘ قوم کے و ڈیرے ‘ مذہبی اور سیاسی لیڈر اور راہنما۔ ہاں ! اگر گردنیں ہی مراد لی جائیں تو بھی مفہوم میں کوئی فرق نہیں فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایسا ممکن نہیں کہ گردنیں تو جھک جائیں لیکن گردنوں والے نہ جھکیں حالانکہ ظاہر ہے کہ گردنیں جھکنے کا مطلب ہی دراصل ان لوگوں کا جھکنا ہے جن کی گردنوں کی بحث ہے ۔ آیت زیر نظر کا مطلب یہ ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ اگر ہم ان لوگوں کو مجبور کرکے ہی منوانا چاہیں تو ایسا کرتے ہم کو کوئی دیر نہیں لگتی لیکن فی الوقت ہم ایسا نہیں چاہتے کیوں ؟ اس لئے کہ ہم نے انکو عقل وفکر اور سوچ سمجھ دی ہے اور پھر آزمانا چاہا کہ وہ اس کا استعمال کس طرح کرتے ہیں اور ان کو مکلف بنایا ہے ظاہر ہے کہ انکو ایک حد تک ہم نے اختیار دیا ہے کہ وہ جو کچھ چاہیں کریں اور جب ہماری قدرت کا فیصلہ ہے اور ہم جو فیصلہ کرتے ہیں وہ بےمقصد نہیں ہوتا نہ ایسا ہوتا ہے کہ آج ایک فیصلہ کیا اور اس کے خلاف دوسرا فیصلہ کردیا ہرگز نہیں ہم نے جو فیصلہ کیا اس میں ان کو آزادی دی ہے اور اس آزادی کو ہم ان سے سلب کرنے والے نہیں ‘ یہ ان کا کام ہے کہ وہ ہمارے اس اختیار سے اپنی آخرت کو سنوار لیں یا انکو بالکل برباد کرکے رکھ دیں اگر انہوں نے اپنی آخرت کو برباد کرنے ہی کا فیصلہ کیا ہے تو ہم انکو مجبور نہیں کریں گے ورنہ اگر مجبور کرنا چاہتے تو زیادہ دیر نہ لگتی کہ انکی گردنیں ہمارے قانون کے سامنے جھکی ہوئی ہوتیں ، غور کرو کہ فرعون نے کتنی ضد کی اور کس طرح اکڑتا اور اتراتا رہا لیکن آخر کب تک ؟ جب تک ہم نے اس کو ڈھیل دے رکھی تھی اور جب اس کی پکڑ کر وقت آیا تو اس نے ایمان لانے میں کتنی دیر کی ؟ وہ تو پکار پکار کر کہنے لگا تھا کہ میں بنی اسرائیل کے رب کو مان گیا ہوں لیکن اس ماننے نے اس کو کچھ فائدہ نہ دیا اس لئے کہ اب وہ ماننے پر مجبور ہوگیا تھا اور مجبور ہو کر کئے گئے کام کی عنداللہ کوئی قدروقیمت نہیں ۔ اس لئے آپ ﷺ کے مخاطبین کو بھی ہم ایک وقت تک مجبور کرنا چاہتے جس وقت تک ہم نے ان کو اختیار دیا ہے ۔
Top