Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 83
رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَۙ
رَبِّ : اے میرے رب هَبْ لِيْ : مجھے عطا کر حُكْمًا : حکم۔ حکمت وَّاَلْحِقْنِيْ : اور مجھے ملا دے بِالصّٰلِحِيْنَ : نیک بندوں کے ساتھ
اے میرے پروردگار ! مجھے حکمت عطا فرما اور مجھے نیکوکاروں میں شامل رکھ
عرض کی اے میرے رب ! مجھے اس ناپاک معاشرہ سے الگ کرکے نیکوں کے ساتھ ملا دے : 83۔ انسان کتنا ہی صابر اور کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو آخر بھی انسان ہے اس کا جی تو بہرحال چاہتا ہے کہ اس کو معاشرت کے لئے اچھے ساتھی ملیں اور اس طرح دنیوی خوشیاں بھی اس کو حاصل ہوں اس طرح گویا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے ہجرت کی دعا فرمائی کہ اے میرے رب اس معاشرہ کے لوگوں نے تو میری ہر بات کا مذاق ہی بنایا ہے اور میری ہر بات کا جواب نہ دے سکنے کے باوجود اپنی ضد پر ہی قائم رہے ہیں مجھے ایسے ساتھی بھی عطا فرما جو نیک اور صالح ہوں ۔ گویا اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب ایک انسان اس قدر تھک جاتا ہے کہ وہ اپنے خاندان اپنے جنم بھوم ‘ اپنے علاقہ اور اپنے ملک کو بخوشی چھوڑ دینے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور جب حالات اس حد تک پہنچ چکے اور دل نے ان ساری چیزوں سے رخصت ہونے کو قبول کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اس علاقہ کی طرف راہنمائی فرما دی جس علاقہ میں سب کچھ اللہ تعالیٰ نے گویا پہلے ہی تیار کر رکھا تھا اور اس علاقہ سے پھر آخرت کا الحاق ہوگا جو فطرت انسانی کے لئے اللہ تعالیٰ نے لازم ٹھہرایا ہے اور عرف عام میں اس کا نام موت رکھا گیا ہے جس منزل کے بعد انسان اصل زندگی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اگرچہ وہ زندگی اس دنیوی زندگی سین کوئی مشابہت نہیں رکھتی سوائے ایک نام کے کہ حیات کا نام دنیا میں بھی اسی عارضی زندگی پر بولا جاتا ہے اور آنے والی دعا جو مخصوص طور پر ابراہیم (علیہ السلام) نے مانگی تھی ابراہیم (علیہ السلام) کے ماننے والوں نے اس کی قبولیت کو تسلیم نہ کیا ہائے افسوس کہ ہمیں کیا ہوگیا ؟ ۔
Top