Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 14
وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا١ؕ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
وَجَحَدُوْا : اور انہوں نے انکار کیا بِهَا : اس کا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ : حالانکہ اس کا یقین تھا اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل ظُلْمًا : ظلم سے وَّعُلُوًّا : اور تکبر سے فَانْظُرْ : تو دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اور انہوں نے ان کا انکار کردیا بےانصافی اور غرور کے باعث حالانکہ ان کے دلوں نے ان کا یقین کرلیا تھا ، پس دیکھئے کہ ان فساد پھیلانے والوں کا کیا انجام ہوا
فرعون نے اپنے ظلم کا اعتراف کرنے کے باوجود ظلم کو ترک نہ کیا : 14۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تفصیلی سرگزشت چونکہ پیچھے گزر چکی ہے جیسا کہ آپ پیچھے سے پڑھتے چلے آ رہے ہیں اور خصوصا سورة طہ میں وضاحت گزر چکی ہے اس لئے اس کا اختصار سے یہاں ذکر کیا گیا اور آخر میں اصل مدعا سامنے رکھ دیا گیا جس کے لئے یہ سرگزشت بار بار وقفہ وقفہ سے سنائی جا رہی ہے ، اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ﷺ کو مخاطب کرکے بتایا جا رہا ہے کہ اے رسول ﷺ جو لوگ دعوت حق کو قبول نہ کرنا چاہتے ہوں وہ ایک دو نہیں بیسیوں نشانیاں دیکھ لینے کے بعد اپنے انکار کے لئے کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتے ہیں باوجود اس کے کہ ان کے دل بھی اقرار کرتے ہیں کہ داعی الی اللہ کی بات بالکل صاف اور سچ ہے لیکن اس کے باوجود برابر تکذیب ہی کرتے رہتے ہیں اور ان کے انکار کی اصل وجہ یہ نہیں ہوتی کہ حق ان پر اچھی طرح واضح نہیں ہوتا بلکہ اس کا اصل سبب ان کا ظلم اور تکبر ہوتا ہے وہ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق تلف کرنے کے عادی مجرم ہوتے ہیں اور حق کو حق سمجھنے کے باوجود حق سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور اپنی خواہش کے بندے بن کر خواہش کے خلاف حق کو ٹھکرا دیتے ہیں اور سب کچھ دیکھ سن لینے کے بعد بھی فرعون نے یہی کچھ کیا اور انجام کار سنت اللہ نے اپنے مقررہ وقت پر اس کا کام تمام کردیا ۔
Top