Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 70
وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ لَا تَكُنْ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْكُرُوْنَ
وَ : اور لَا تَحْزَنْ : تم غم نہ کھاؤ عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا تَكُنْ : اور آپ نہ ہوں فِيْ ضَيْقٍ : تنگی میں مِّمَّا : اس سے جو يَمْكُرُوْنَ : وہ مکر کرتے ہیں
(اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ ان پر غم نہ کھائیں اور نہ ہی ان کے مکر و فریب سے تنگ دل ہوں
اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ﷺ ان لوگوں کے حال پر رنج نہ کرو اور نہ اتنے دل تنگ ہو : 70۔ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ کے ذمہ کیا تھا ؟ صرف پیغام پہنچانا وہ آپ ﷺ نے پہنچا دیا اور ان کو سمجھانے کا حق ادا کردیا ۔ آپ ﷺ ان پر زیادہ غم نہ کیجئے اور جو کچھ یہ لوگ چالیں چل رہے ہیں اس سے تنگ نہ ہوں بلکہ اس بات کا خیال رکھیں کہ دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ بھی برابر یہی معاملہ ہوتا رہا ہے ، مشرکین ومعاندین کی مسلسل وشدید مخالفتوں کے باعث دو ہی اثرات رسول اللہ ﷺ کے دل پر پڑ سکتے تھے ایک آپ ﷺ کا فرط شفقت سے ان کے حق میں غم کھانا تو اس پر آپ ﷺ کو (لا تحزن علیھم) کہہ کر روک دیا گیا دوسرا آپ ﷺ کے دل کا اس خیال سے کڑھنا کہ اس سے کہیں اسلام کی ترقی کی رفتار رک نہ جائے تو اس کے لئے آپ ﷺ کو اس طرح تسلی دی گئی کہ (آیت) ” ولا تکن فی ضیق مما یمکرون “ آپ ﷺ ان کی ان چالوں پر تنگ نہ ہوں کہ تمہاری پشت پر اللہ کا ہاتھ ہے اگر یہ لوگ آپ ﷺ کی بات نہ مانیں گے تو یقینا اپنا ہی نقصان کریں گے ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح کی تسلیاں آپ ﷺ کو بار بار دیں لیکن آپ ﷺ کی طبیعت کے طبعی تقاضا کو کیونکر روکا جاسکتا تھا کیونکہ آپ ﷺ کو تو قلق ہی تھا کہ کاش یہ لوگ اپنے نقصان سے باز آجائیں ۔ آپ ﷺ کو اپنے نقصان کی کوئی فکر تو اس غم پر مغموم نہیں کر رہی تھی ، فکر تو سراسر قوم ہی کی تھی جس پر ارشاد باری اس طرح ہے اور اکبر الہ آبادی نے کہا ہے کہ : ” آگ انکی خود ہی دے گی ان کو بھون ولا تکن فی ضیق مما یمکرون :
Top