Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 69
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ
قُلْ : فرما دیں سِيْرُوْا : چلو پھر تم فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ : کیا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
(اے پیغمبر اسلام ! ) آپ ﷺ کہہ دیجئے ذرا زمین کی سیر کرو پھر دیکھو کہ (ایسے) گناہگاروں کا کیا انجام ہوا ؟
اٹھو زمین میں چلو پھرو اور مجرموں کے انجام کی تصویر اپنی آنکھوں سے ذرا دیکھ لو : 69۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ کتنا وقت گزر گیا اور تم نے کبھی غور وخوض کرکے ان دلائل کو جانچنے کی زحمت ہی نہیں اٹھائی جو آخرت کے وقوع کے بارے میں کئے گئے بلکہ ان کی طرف سے اندھے بن کر ہی رہنے کو تم نے ترجیح دی فرمایا ذرا اٹھو اور اللہ کی زمین میں چلو پھرو اور اپنی آنکھوں سے دیکھو کہ جن لوگوں نے آخرت کا انکار کیا تھا ان کا کیا بنا قوم عاد ‘ قوم ثمود ‘ قوم مدین ‘ قوم لوط سب کے آثار آج تک موجود ہیں ان کے تذکار تم نے قرآن کریم میں پڑھے ہیں ان کا انجام ذرا اپنی آنکھوں سے دیکھو کہ وہ اس طرح کے فسق وفجور کی پاداش میں کس طرح غرق کردی گئیں اور اخلاق کی تباہی نے انجام کار ان کو برباد کرکے چھوڑا ، بس اس پر استدلال کرکے تم سمجھ سکتے ہو اگر سمجھنا چاہتے ہو اور اگر تمہاری بس وہی ڈگر جاری رہے گی جو ان کی تھی تو تمہارا بھی انجام یقینا ویسا ہی ہوگا جیسا کہ انکا ہوچکا ، مرنے کو تو دونوں ہی مرے قیامت کو ماننے والے بھی اور نہ ماننے والے بھی لیکن دونوں کی موت کا فرق آج بھی روز روشن کی طرح واضح دکھائی دے رہا ہے کہ یہ ان منکرین کی موت کے نشان ہیں جو قیامت کو جھٹلانے والے تھے ۔ غور کرو کہ حادثہ یا اتفاق اس کو کہتے ہیں جو ایک بار ہو یا کبھی ایک طرح ہو اور کبھی دوسری طرح لیکن تاریخ کے ایک طویل تجربے میں مجرم بن جانے والی قوموں کا مسلسل تباہ ہونا اس حقیقت پر صاف صاف دلالت کر رہا ہے کہ یہ کائنات بےشعور طاقتوں کی اندھی بہری فرمانروائی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حکیمانہ نظام ہے جس کے اندر ایک اٹل قانون مکافات کام کر رہا ہے اب جس میں کسی قوم کو بدکرداریوں کی کھلی چھوٹ نہیں دی جاتی کہ ایک دفعہ عروج پا جانے کے بعد وہ ابد لآباد تک داد عیش لیتی رہے اور ظلم وستم کے ڈنکے بجائے چلی جائے نہیں بلکہ ایک خاص حد کو پہنچ کر ایک زبردست ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور اس کو بام عروج سے گرا کر قعرمذلت میں پھینک دیتا ہے اس حقیقت کو جو شخص سمجھ لے وہ کبھی اس امر میں شک نہیں کرسکتا کہ یہی قانون مکافات اس دنیوی زندگی کے بعد ایک دوسرے عالم کا تقاضا کرتا ہے جہاں پوری نوع انسانی کا انصاف چکایا جائے کیونکہ محض ایک ظالم قوم کے تباہ ہوجانے سے تو انصاف کے سارے تقاضے کبھی پورے نہیں ہوتے ۔ اس سے ان مظلوموں کی تو کوئی داد رسی نہیں ہوتی جن کی لاشوں پر انہوں نے اپنی عظمت کا قصر بنایا تھا ، اس سے ان ظالموں کو تو کوئی سزا نہیں ملی جو تباہی کے آنے سے پہلے مزے اڑا کر جا چکے تھے اس سے ان بدکاروں پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہوا جو پشت در پشت اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لئے گمراہیوں اور بداخلاقیوں کی میراث چھوڑتے چلے گئے تھے ، دنیا میں عذاب نازل کر کے تو صرف ان کی آخری نسل کے مزید ظلم کا سلسلہ توڑا گیا تھا ابھی عدالت کا اصل کام کب ہوا ہے ؟ اصل عدالت تو یہ ہے کہ ہر ظالم کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے اور ہر مظلوم کے نقصان کی تلافی کی جائے اور یقینا اس کے لئے وہی دن مقرر ہے جس کو روز قیامت سے تعبیر کیا جاتا ہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے بہرحال اس کو آنا ہے اور اس انصاف کو ہونا ہے اور ہر مجرم کو اپنا انجام ضرور دیکھنا ہے ۔
Top