Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 82
وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۠   ۧ
وَاِذَا : اور جب وَقَعَ الْقَوْلُ : واقع (پورا) ہوجائے گا وعدہ (عذاب) عَلَيْهِمْ : ان پر اَخْرَجْنَا : ہم نکالیں گے لَهُمْ : ان کے لیے دَآبَّةً : ایک جانور مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے تُكَلِّمُهُمْ : وہ ان سے باتیں کرے گا اَنَّ النَّاسَ : کیونکہ لوگ كَانُوْا : تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیت پر لَا يُوْقِنُوْنَ : یقین نہ کرتے
اور جب ان پر وعدہ پورا ہونے کو ہوگا ہم ان کے لیے { دابۃ الارض } کو نکالیں گے جو ان سے باتیں کرے گا بلاشبہ (کچھ) لوگ ہماری آیتیوں پر یقین نہیں رکھتے
جب ان کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آئے گا تو ہم دابۃ الارض کو ظاہر کریں گے : 82۔ (دآبۃ) کا لفظ قرآن کریم میں 14 بار اور (الدواب) کا چار بار آیا ہے اس سے مراد ہر چلنے پھرنے والا ‘ پاؤں دھرنے والا ‘ رینگنے والا کے ہیں جس میں حشرات الارض میں سے ہر ایک جن گنتی لاکھوں میں نہیں کی جاسکتی بشمول انسان ‘ حیوان سب کے بولا جاتا ہے اگرچہ عرف میں یہ لفظ گھوڑے کے لئے مخصوص ہے مگر سب جانوروں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور بلاشبہ اسمیں ہر ایک حیوان داخل ہے۔ زیر نظر آیت میں اسی (دآبۃ الارض) کا ذکر ہے جو لوگوں سے باتیں کرے گا اور ظاہر ہے کہ لوگوں سے باتیں کرنے والا تو کوئی انسان ہی ہو سکتا ہے اور انسان پر بھی جب (دآبۃ الارض) کا لفظ بول سکتے ہیں تو اس سے جنس انسان یا کوئی ایک مخصوص انسان بھی مراد لیا جاسکتا ہے ہاں اگر انسان کے لئے اس کا استعمال نہ ہوتا تو یقینا (تکلمھم) سے ہم سمجھ سکتے تھے کہ وہ کوئی جانور ہوگا جو لوگوں سے باتیں کرے گا اور جب (دآبۃ) کا لفظ انسان پر بولا جاتا ہے تو اس سے اس جگہ کوئی جانور ہی مراد لینا آخر کیوں ضروری ہے ؟ اور یہ بھی کہ اس سے انسان مراد لینے میں آخر مانع کیا ہے ؟ لیکن ان سوالوں کا جواب ان ہی لوگوں ‘ دوستوں اور بزرگوں کے ذمہ ضروری ہے جو اس سے مراد انسان نہیں لیتے ہاں ! اگر یہ انسان ہی ہے تو آخر اس پر انسان کا لفظ چھوڑ کر (دآبۃ الارض) کا الطلاق کیوں کیا گیا ؟ بلاشبہ یہ بات قابل غور ہے اور یہ سوال بھی معقول سوال ہے لیکن ہم جب یہ دیکھتے ہیں کہ (دآبۃ الارض) کا لفظ انسان پر محض اس لئے بولا گیا ہے کہ وہ انسان باوجود انسان ہونے انسانوں کی سی صفات سے عاری ہے اور حیوانوں کی صفات سے متصف ہے جیسا کہ پیچھے اندھوں ‘ بہروں کا ذکر کرکے بتایا گیا ہے حالانکہ بظاہر ان کے پاس دیدے بھی موجود ہیں اور کانوں سے بھی وہ لوگ بہرے نہیں بلکہ بات صرف اسی قدر ہے کہ وہ کان رکھنے کے باوجود سنی ان سنی کردیتے ہیں اور دیکھی ان دیکھی اس طرح گویا انکا سننا اور نہ سننا ‘ دیکھنا اور نہ دیکھنا چونکہ برابر ہے اس لئے ان کو باوجود زندگی رکھنے کے مردہ قرار دیا گیا ہے اور باوجود دیکھنے کا اندھے کہا گیا ۔ بالکل اسی طرح اس جگہ اس کا انسانیت سے عاری سمجھتے ہوئے (دآبۃ الارض) کہا گیا ۔ اس سورت میں پیچھے گزر چکا ہے کہ شرف انسانی کے خلاف حرکتیں کرنے والوں کو (احسن تقویم) سے نکال کر (اسفل سافلین) میں بیان کیا گیا حالانکہ وہ ملک کا برسراقتدار طبقہ کے لوگ ہیں جو اپنے ملک کے اندر بڑے بڑے عہدوں پر فائز المرام ہیں اس طرح اس شخص کو (دآبۃ الارض) قرار دیا گیا ہے کہ بلاشبہ وہ انسانی اوصاف سے عاری ہوگا چناچہ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ وہ دآبۃ ایسا دابۃ نہ ہوگا جس کی دم ہو بلکہ وہ داڑھی والا ہوگا ۔ (مظہری) ظاہر ہے کہ آپ کے اس ارشاد کا مطلب ومقصد بھی یہی ہے کہ وہ ایک انسان ہوگا کوئی چوپایہ وغیرہ نہیں ہوگا ۔ تاہم اس کی شکل و صورت کے متعلق اس قدر مبالغہ آمیزی کی گئی ہے کہ جی نہیں چاہتا کہ اس کو ایک خواہ مخواہ کا موضوع بنا لیا جائے اور گزشتہ بحثوں کی طرح آوراہ بحث شروع کردی جائے ، ہمارے لئے اتنی بات ہی کفایت کرتی ہے کہ وہ ایک انسان ہوگا جو انسان اوصاف سے یقینا محروم ہوچکا ہوگا پھر ایسا انسان انسانی اوصاف سے محروم ہو کر جو کچھ وہ کرتا ہے یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور مختصر یہ کہ احادیث سے جو مجموعی چیز ہم کو معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ظاہر ہونے کے بعد کفر واسلام میں واضح فرق ہوجائے گا اس کی جو بھی صورت ہوگی اور وہ جس طرح بھی ہوگا عین ممکن ہے کہ اس کا ساتھ دینے والے وہی ہوں گے جو کھلے طور پر کفر کریں گے اور اس کے مقابلہ پر وہی آئیں گے جو سچے مومن ہوں گے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جب اس طرح کا کوئی نشان ظاہر ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی حادثہ رونما ہونے والا ہوتا ہے اور اس حادثہ میں ہمیشہ ان لوگوں کو عذاب میں مبتلا کردیا جاتا ہے جن کا کفر واضح ہوجاتا ہے اور ان سے اس علاقہ کو پاک کردیا جاتا ہے ، یہ علامات قیامت میں سے ہے تو یقینا اس کے اظہار کے بعد یہی ہوگا اور یہ گویا اس طرح کی ایک نشانی قرار دیا جاسکتا ہے جیسے گزشتہ انبیاء کرام کی امتوں کی ہلاکت کے لئے ایک نشان مقرر کیا جاتا رہا ہے اگر فرق ہے تو یہی ہے کہ ان کی علامت ایک علاقہ ‘ قوم اور بستی کے لئے ہوتی تھی اور یہ علامت پوری دنیا کے انسانوں کے لئے ہوگی یہی وجہ ہے اس کو ایک فرد نہیں مانا گیا بلکہ ہر بستی ‘ گاؤں اور شہر کے لئے اس کا ایک فرد کا اظہار ضروری قرار دیا گیا ہے تاہم اس کا تعلق اخبار غیب سے ہے جن کی اصل حقیقت اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہی جانتا ہے ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس پر مجمل طور پر ایمان رکھیں ‘ اس کا ظہور یقینا ہوگا لیکن کس طرح ہوگا یہ بات اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ہم اس کی تصدیق کرنے کے پابند ہیں حقیقت معلوم کرنے کے لئے نہیں اور یہی بات زیر نظر آیت میں بتائی گئی ہے کہ بہت سے لوگ ہماری ان نشانیوں پر یقین نہیں رکھتے حالانکہ غیب کی باتوں پر بحث نہیں ہوتی فقط ایمان ضروری ہوتا ہے اور یہی اس جگہ تعلیم دی گئی ہے ۔ بعض لوگوں نے اس کی تعبیر یہ بھی بتائی ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ سے قریش مکہ جو بار بار نشان طلب کرتے تھے ان کے جواب میں یہ بات نبی اعظم وآخر ﷺ کو بتائی گئی ہے کہ ابھی تو ان کو ہم نے اپنے قانون امہال کے تحت ڈھیل دے ریکھی ہے بالکل اسی طرح جس طرح دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی قوموں کو ایک مقررہ وقت تک دی جاتی رہی ہے اور آپ ﷺ ان کو اپنی کتاب قرآن کریم کی تعلیم دے رہے ہیں اور تذکیر کے ساتھ ساتھ انذار وتبشیر بھی کئے جا رہے ہیں آپ اپنا طریقہ سے جاری رکھیں اگر یہ مان گئے تو ٹھیک اور اگر ان کے حق میں عذاب ہی کا فیصلہ ہوگیا تو کوئی نشانی اس زمین سے ان کے لئے ظاہر کردی جائے گی اور ہماری سنت کے مطابق ان کے لئے عذاب ہی کا فیصلہ ہوجائے گا لیکن ہمارے خیال میں ان جدید مفسرین کے بیان میں شک کا معاملہ ختم کردیا جانا ضروری ہی اور اس کے لئے کوئی قرینہ ضرور ہونا چاہئے جو یہاں موجود نہیں اور اللہ تعالیٰ کی باتیں اس طرح شک کے ساتھ نہیں ہوتیں اس لئے اگر ایک بات کو ہم سمجھ نہیں سکے تو پہلے لوگوں کی سمجھی ہوئی بات ہی ہمارے لئے کفایت کرتی ہے ہاں ! اگر اس کا مفہوم کسی وقت اس سے زیادہ واضح ہوجائے تو اس کو حقیقت پر مبنی سمجھ لیا جائے گا اور ہم اس کے لئے فی الوقت معذرت کرتے ہوئے مجمل طور ایمان لاتے ہیں اور حقیقت حال اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہی جانتا ہے ۔ اس مضمون کی ابتداء اس جگہ اس طرح کیوں ضرور قرار پائی ، ہاں ! یہ بات اپنی جگہ صحیح اور درست ہے کہ زیر نظر آیت سے مضمون کو قیامت کے حالات کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے اور آنے والی آیات کریمات میں چونکہ قیامت کا مضمون ہے اس لئے اس کی تمہید میں اس مضمون کو اسی طرح پھیر دیا گیا جیسا کہ آنے والی آیات کریمات سے روز روشن کی طرح واضح ہے اس لئے ہم اس فرضی بات کے بیان کی ضرورت نہیں چاہتے وہ نئے مفسرین کی ہے بلکہ بات وہی زیادہ صحیح ہے جو سابق مفسرین نے سمجھی ہے اگرچہ وہ (دآبۃ الارض) کی تفسیر وتشریح میں حسب عادت بہت دور نکل گئے ہیں اور اس طرح حقیقت کو ایک اچنبھا بنا کر رکھ دیا ہے اور یہ بات مفسرین کے لئے کوئی نئی نہیں ہے بلکہ ایسا ہوتا ہی چلا آیا ہے اور ہم اس بات کو اختصار کے ساتھ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کہ اس ارشاد پر ختم کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ” قیامت کی اولین علامتوں میں سے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت دابۃ کا نکلنا ہے ان دو میں سے جو بھی پہلے واقعہ ہوا دوسرا اس کے فورا بعد ہوگا “ (صحیح مسلم) اور علاوہ ازیں روایات کی ضمنی باتوں سے ہم بحث نہیں کرتے کیونکہ ان میں رطب ویابس سب کچھ آگیا ہے ۔
Top