Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 81
وَ مَاۤ اَنْتَ بِهٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ١ؕ اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ
وَمَآ اَنْتَ : اور تم نہیں بِهٰدِي : ہدایت دینے والے الْعُمْىِ : اندھوں کو عَنْ : سے ضَلٰلَتِهِمْ : ان کی گمراہی اِنْ : نہیں تُسْمِعُ : تم سناتے اِلَّا : مگر۔ صرف مَنْ : جو يُّؤْمِنُ : ایمان لاتا ہے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں پر فَهُمْ : پس وہ مُّسْلِمُوْنَ : فرمانبردار
اور نہ ہی آپ (دِل کے) اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر ہدایت (کی راہ) دکھا سکتے ہیں ، نہیں سنوا سکتے آپ مگر ان ہی لوگوں کو جو ہماری باتوں پر یقین رکھتے ہیں ، پس وہی فرمانبردار ہیں
گمراہی کے اندھوں کو آپ ﷺ ہدایت نہیں دے سکتے ‘ دل کے مومن ہی کو آپ ﷺ سنا سکتے ہیں : 81۔ فرمایا اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ ﷺ اگر سنوا سکتے ہیں تو صرف اور صرف انہیں لوگوں کو جو خود ہماری آیتوں پر ایمان لانا چاہیں اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر طلب ہدایت کا داعیہ رکھا ہے اور پھر سنت الہی اس طرح وا اقع ہوئی ہے کہ جو لوگ اس داعیہ کی خود کوشش کرتے ہیں اور تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں وہ یقینا ہدایت حاصل کرلیتے ہیں اور جو لوگ خود کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی طلب میں نکلتے ہیں گویا ان کا وہ داعیہ مر جاتا ہے اور جس کا داعیہ مر گیا وہ کیا خاک سنیں گا اور جو کچھ قرآن کریم نے بیان کی وہ قرآن کریم سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں میں بھی بیان کیا گیا چناچہ انجیل میں ہے کہ : ” شاگردوں نے پاس آکر اس سے کہا کہ تو ان تمثیلوں میں کیوں باتیں کرتا ہے ؟ اس نے جواب میں ان سے کہا اس لئے کہ تم کو آسمان کی بادشاہی کے بھیدوں کی سمجھ دی گئی ہے مگر ان کو نہیں دی گئی کیونکہ جس کے پاس ہے اسے دیا جائے گا اور اس کے پاس زیادہ ہوجائے گا اور جس کے پاس نہیں ہے اس سے وہ بھی لے لیا جائے گا جو اس کے پاس ہے میں ان سے تمثیلوں میں اس لئے باتیں کرتا ہوں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے اور نہیں سمجھتے اور ان کے حق میں یعیاہ کی پیش گوئی پوری ہوئی ہے کہ تم کانوں سے سنو گے پر ہرگز معلوم نہ کرو گے ، کیونکہ اس امت کے دلوں میں جو چربی چھا گئی ہے اور وہ کانوں سے اونچا سنتے ہیں اور انہوں نے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے معلوم کرلیں اور کانوں سے سنیں اور دل سے سمجھیں اور رجوع لائیں ۔ “ (متی باب 13 : 10 تا 16) ہم اس کی پوری وضاحت سورة الحج کی آیت 46 میں بیان کر آئے ہیں وہاں سے ملاحظہ کریں اور یہی مضمون سورة المائدہ کی آیت 71 ‘ سورة الانعام کی آیت 50 اور سورة یونس کی آیت 43 میں بھی گزر چکا ہے ۔
Top