Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 77
وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ
وَابْتَغِ : اور طلب کر فِيْمَآ : اس سے جو اٰتٰىكَ : تجھے دیا اللّٰهُ : اللہ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر وَلَا تَنْسَ : اور نہ بھول تو نَصِيْبَكَ : اپنا حصہ مِنَ : سے الدُّنْيَا : دنیا وَاَحْسِنْ : اور نیکی کر كَمَآ : جیسے اَحْسَنَ اللّٰهُ : اللہ نے نیکی کی اِلَيْكَ : تیری طرف (ساتھ) وَلَا تَبْغِ : اور نہ چاہ الْفَسَادَ : فساد فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اور (یہ) جو اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے کچھ آخرت کا سامان کرلے اور اپنا حصہ دنیا سے فراموش نہ کر اور جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے تو بھی دوسروں کے ساتھ بھلائی کر اور زمین میں فساد کی راہیں مت نکال ، بلاشبہ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
موسیٰ (علیہ السلام) کا وعظ قارون کی مجلس خاص میں : 77۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کی مجلس میں اس کو وعظ کرتے ہوئے بہت سی نصیحتیں کیں اور اس کو ضمیر فروشی اور خصوصا قوم فروشی سے بہت روکا اور ہدایت کی کہ دیکھو تمہارا تعلق قوم بنی اسرائیل سے ہے اور فرعون بنی اسرائیل پر کس طرح ظلم وستم کر رہا ہے اور تم ہو کہ اس کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنا الو سیدھا کئے ہوئے ہو آخر اس دولت کو کہاں ثبات ہے اور اس نے کس کا ساتھ دیا ہے ۔ آپ فرعون کی حکومت سے اس قدر بےفکر زندگی کیوں بسر کر رہے ہیں جب کہ قوم کے ہاتھوں میں غلامی کی بیڑیاں اور گلے میں غلامی کا طوق باعث ننگ وعار ہے ۔ حالانکہ جو کچھ تم کو دیا گیا ہے اسی قوم فروشی کے باعث دیا گیا ہے تم اگر فرعون کے مقابلہ میں اٹھتے تو آج قوم بنی اسرائیل کی حالت یہ نہ ہوتی ۔ اسی طرح کی باتیں موسیٰ (علیہ السلام) نے قارون کے سامنے بےجھجھک بیان کردیں اور خصوصا اس کو آخرت کی طرف توجہ دلائی کہ یہ جو مال و دولت تجھ کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یہ اس لئے نہیں دیا کہ آپ اکڑ کر قوم کو دکھائیں بلکہ یہ اس لئے دی ہے کہ تم اس کے ذریعہ اپنی آخرت کو سنوار لو اور وہاں کی فلاح وفوز حاصل کرنے کی کوشش کرو ۔ یہ جو کچھ تم کو ملا ہے بلاشبہ یہ تمہارے باپ داد کی میراث نہیں ہے لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ اسکا تعلق آپ کی عقل وفکر سے بھی نہیں بلکہ ہاں ! اس کا تعلق تمہاری آزمائش اور امتحان سے ہے کہ تم اس میں اپنا حصہ کیا رکھتے ہو اور یہ رزق بھیجنے والے رب کریم کی رہ میں خرچ کرکے اس کی کتنی خوشنودی حاصل کرتے ہو اور جو نیکی اور احسان اللہ کی ذات نے تم پر کیا ہے یہ کیوں ہے ؟ محض اس لئے کہ تم دوسروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو اے قارون ! آپ فساد فی الارض کے مرتکب ہو رہے ہیں اور فساد فی الارض کا نتیجہ کبھی بھی اچھا نہیں نکل سکتا ، بلاشبہ زمین میں فساد چوری ‘ رہزنی ‘ ڈکیتی اور قتل و غارت کو بھی کہتے ہیں لیکن اصل فساد فی الارض علو و استکبار ہے کیونکہ اس آدمی اپنے حدود بندگی سے تجاوز کرکے اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے حدود وحقوق میں مداخلت کرنے لگتا ہے جو لوگ اس جرم کے مرتکب ہیں وہ دراصل مفسدین فی الارض ہیں خواہ وہ یہ کام کتنی ہی دانش فروشیوں کے ساتھ کریں یہی وہ لوگ ہیں جن کو کبھی اللہ رب پسند نہیں کرتا اور وہ ان کو آخر پسند بھی کیوں کرے گا جو انسانوں کو چھوڑ کر اللہ ہی کے مقابلہ میں اٹھائیں اور اس کے کاموں میں داخل اندازی شروع کردیں ۔ خیال رہے کہ جن ہاتھوں میں دولت ناجائز طریقوں سے آتی ہے اس کا نتیجہ ہمیشہ یہی نکلتا ہے جو قوم بنی اسرائیل کے قارون کا نکلا اور آج بھی ایسے قارونوں کی کوئی کمی نہیں ہے بلاشبہ جو لوگ ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ ان حربوں کے نتیجہ مین ایک دن کروڑ پتی ہوتے ہیں تو دوسری روز ارب پتی اس طرح ان کو کچھ موقع میسر آجائے تو وہ سارے پیتوں سے تجاوز کرکے حدود اللہ میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں یہی کچھ اس قارون نے کیا تھا اور یہی کچھ آج کے قارون کر رہے ہیں ۔
Top