Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 48
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ
وَمَا : اور نہ كُنْتَ تَتْلُوْا : آپ پڑھتے تھے مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنْ كِتٰبٍ : کوئی کتاب وَّلَا تَخُطُّهٗ : اور نہ اسے لکھتے تھے بِيَمِيْنِكَ : اپنے دائیں ہاتھ سے اِذًا : اس (صورت) میں لَّارْتَابَ : البتہ شک کرتے الْمُبْطِلُوْنَ : حق ناشناس
اور تو (اے پیغمبر اسلام ! ) اس سے پہلے نہ تو کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتا تھا اگر ایسا ہوتا تو اہل باطل شبہ میں پڑتے (آخر اب ان کے شبہ کا سبب کیا ہے ؟ )
نبوت سے پہلے نبی کریم ﷺ نہ لکھ سکتے تھے اور نہ ہی پڑھ سکتے تھے : 48۔ نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ نبوت سے پہلے نہ تو لکھنا جانتے تھے اور نہ ہی پڑھنا کیونکہ آپ ﷺ نے کسی انسان کے سامنے تہ زانو نہیں کئے کہ کسی سے لکھنا اور پڑھنا سیکھا ہو اور یہ واضح طور پر اس بات کی نشانی ہے کہ آپ ﷺ نے قرآن کریم کی عبارت میں سے کچھ بھی اپنی طرف سے بیان نہیں کیا اور نہ ہی نزول قرآن کریم سے پہلے لکھنا پڑھنا جانتے تھے کہ آپ ﷺ نے کسی سے کچھ سیکھ لیا ہو یا کسی سے کچھ پڑھ لیا یا کسی سے کچھ لکھوا لیا ہو جس کو بعد میں املا کیا گیا ہو لیکن نبوت آئی تو نبوت کے ساتھ ہی پڑھنا بھی آگیا اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کے ساتھ وہبی طور پر پڑھنا آگیا نہ کہ اس کی مشق اور اس کی تعلیم لینے سے اور یہی وہ معجزانہ چیز ہے جو نبوت کے متعلق خاص ہے ۔ معروف احادیث میں تفصیل پوری وضاحت سے موجود ہے کہ جب فرشتہ کا نزول ہوا اور اس نے آپ ﷺ کے سامنے کوئی تحریر شدہ چیز پیش کرتے ہوئے کہا کہ پڑھو ‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ما انا بقاری میں پڑھا ہو انہیں پھر ایک بار نہیں تین بار یہ بات ایک دوسرے کے ساتھ دوسرے کے ساتھ دہرائی گئی اور ہر بار فرشتہ نے آپ ﷺ کو بھینچا اس قدر کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی بلاشبہ اس کی حقیقت آپ اور میں سمجھنے سے قاصر ہیں کیونکہ ہمارے مشاہدہ میں آنے کی یہ چیز نہیں کہ ہم اس کی حقیقت معلوم کرسکیں ہمارا ایمان ہے کہ جو نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ حق ہے اور حقیقت حال اللہ جانتا ہے یا اس فرشتہ کو معلوم ہوگی یا نبی کریم ﷺ کو جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ، لیکن اس کے بعد کیا ہوا ؟ آپ ﷺ نے لکھا ہوا پڑھنا شروع کردیا یا نہیں اور اس طرح آپ ﷺ کو لکھنا بھی آگیا یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے اور اختلاف بھی کثیر ہے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس کے بعد آپ ﷺ کو پڑھانا آگیا تھا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کا لکھا ہوا آپ ﷺ پڑھ سکتے تھے اور بعض کا خیال ہے کہ آپ ﷺ کو لکھنا بھی آگیا تھا کہ اس کے بعد آپ ﷺ کو لکھنا بھی آگیا تھا اس کے بعد آپ ﷺ لکھ بھی سکتے تھے اگرچہ جلدی نہیں جس کا تعلق مشق سے ہے لیکن ان لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور جن لوگوں نے یہ لکھا ہے ان کو ان کے زمانہ میں بہت مطعون بھی کیا گیا ہے اور کفر کے فتوی بھی صادر کئے گئے ہیں اور اکثریت یہی کہتی ہے کہ نہ تو آپ ﷺ کو پڑھنا آتا تھا یعنی کسی لکھا ہوا اور نہ ہی لکھنا بلکہ وہ وحی الہی جو فرشتہ آپ ﷺ کے سامنے پڑھتا تھا اسی وقت آپ ﷺ کو ازبر ہوجاتی تھی اور اس کو آپ ﷺ آگے لکھوا دیتے تھے نہ تو آپ ﷺ کسی کا لکھا ہوا پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی خود لکھ سکتے تھے ‘ نہ نبوت و رسالت سے پہلے اور نہ نبوت و رسالت کے بعد اور پھر تینوں فریق اپنے دلائل پیش کرتے ہیں ، کثرت چونکہ کثرت ہی ہوتی ہے وہ تو آج بھی اپنا آپ اسی طرح منوائے ہوئے ہے اور منوائے رہے گی کیونکہ کثرت کو کسی دلیل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود اپنی کثرت کے باعث سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے اور وہ صرف اس ایک ہی بات میں نہیں بلکہ سینکڑوں باتوں میں ہے ، ہمارے خیال میں صحیح بات ان ہی لوگوں کی ہے جو نبوت کے بعد آپ کا پڑھنا اور لکھنا دونوں کو تسلیم کرتے ہیں اور پھر صرف یہی نہیں بلکہ اس وقت کی ساری زبانیں جن میں تحریر ہوتی تھیں آپ پڑھ سکتے تھے اور بلاشبہ آپ پڑھتے رہے اور اس طرح ہمارے خیال میں آپ کو لکھنا بھی آتا تھا اگرچہ بہت ہی کم لکھتے تھے اور بلاشبہ آپ کا لکھنا ناخواندوں کی طرح کا نہیں تھا بلکہ نہایت صاف اور ستھرا تھا اور بلاشبہ یہ دونوں باتیں آپ کو وہبی طور پر عطا ہوئی تھیں اور نبوت کے ساتھ ہی دی گئی تھیں ۔ آپ ﷺ نے نبوت سے پہلے یا نبوت کے بعد کسی انسان سے لکھنا پڑھنا بلاشبہ نہیں سیکھا اس کی وضاحت ہم پیچھے عروۃ الوثقی جلد چہارم سورة یونس جلد پنجم سورة النحل ‘ سورة بنی اسرائیل ‘ جلد ششم ‘ سورة المومنون اور سورة القصص میں کرچکے ہیں تاہم اس جگہ مزید عرض کریں گے ہمارا موقف ہماری تفہیم ہے جو سمجھا ہے من وعن دیانت کے ساتھ پیش کردیا ہے لیکن کسی سے اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی کسی قسم کا کسی کے خلاف کوئی فتوی ہے ۔ ہاں ! آپ کو حق ہے کہ آپ پوچھیں کہ ہمارے استدلال کی اصل بنیاد کیا ہے تو ہم ضرور عرض کریں گے کہ وہ اس طرح ہے : نبوت عطا ہوئی تو آپ ﷺ کو لکھنا پڑھنا بھی معجزانہ طور پر عطا ہوا : نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ محمد رسول اللہ ﷺ نے کسی شخص سے لکھنا یا پڑھنا نہیں سیکھا اور آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ۔ دو الگ الگ باتیں ہیں ۔ بلاشبہ جہاں تک کسی سے سیکھنے کا تعلق ہے کہ آپ ﷺ نے کسی سے لکھنا اور پڑھنا نہیں سیکھا تھا بالکل صحیح ہے اور اس بات کا زمانہ گواہ ہے اور اس وقت کا سارا ماحول اور خصوصا قریش مکہ کا ایک ایک فرد اس بات کو جانتا اور مانتا تھا رہی یہ بات کہ آپ ﷺ نبوت کے بعد بھی لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے تھے تو یہ بالکل صحیح نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ جب تک بلکہ جس وقت تک آپ ﷺ کو نبوت کا پیغام نہیں ملا تھا چونکہ آپ ﷺ ناخواندہ تھے اس لئے نہ تو پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی لکھ سکتے تھے لیکن جونہی آپ صلی اللہ علہی والہ وسلم کو نبوت عطا ہوئی تو معا آپ ﷺ کو لکھنا بھی آگیا اور پڑھنا بھی اور یہی آپ ﷺ کے مبعوث ہونے کا وہ پہلا معجزہ ہے جو آپ ﷺ کو عطا ہوا اور پھر یہ معجزہ آپ ﷺ ہی کو نہیں بلکہ سارے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور رسل عظام (علیہ السلام) کو حاصل ہوا ۔ وضاحت اس کی آگے آئے گی ، زیر نظر آیت میں بھی یہی کچھ بیان کیا گیا ہے اور حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے چناچہ بخاری شریف میں ہے کہ : عن عروۃ بن الزبیر عن عائشۃ ام لمؤمنین ؓ انھا قالت اول مابدی رسول اللہ ﷺ من الوحی الرؤیا الصالحۃ فی النوم فکان لا یری رؤیا الا جاءت مثل فلق الصبح ثم حبب الیہ الخلاء وکان یخلوا بغار حرآء فیتحنث فیہ وھو التعبدا للیالی ذواتالعدد قبل ان ینزع الی اھلہ وینزود لذلک ثم یرجع الی خدیجۃ فیتزود لمثلھا حتی جاءہ الحق وھو فی غار حراء فجاءہ الملک فقال اقرافقال فقلت ما انا بقاری قال فاخذنی فغطنی حتی بلغ منی الجھد ثم ارسلنی فقال اقرافقلت ما انا بقاری فاخذنی فغطنی الثانیۃ حتی بلغ منی الجھد ثم ارسلنی فقال اقرافقلت ما انا بقاری قال فخذنی فغطنی الثالثۃ ثم ارسلنی فقال اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرام فرجع بھا رسول اللہ ﷺ یرجف فوادہ ۔ ” ما انا بقاری “ کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس وقت تک بلاشبہ پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا لیکن ناموس نبوت نے جب تیسری بار (فغطنی) آپ ﷺ کو بھینچا اور سورة اقراء شروع کرائی تو پہلی دس آیتوں کے ساتھ ہی آپ ﷺ پڑھنے لگے اور پھر پڑھتے ہی رہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو زندگی عطا ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ عیہک والہ وسلم اس دنیا میں رہے پڑھتے ہی رہے ۔ ” وعلم بالقلم “ کے تحت آپ ﷺ نے بلاشبہ ضرورت کے لئے لکھنا بھی شروع کردیا ” وعلم الانسان مالم یعلم “ کے تحت جتنا جاننا نبوت اور رسالت کے لئے ضروری تھا بلاشبہ وہ آپ ﷺ کو عطا کردیا گیا اور بلاشبہ یہ تینوں چیزیں آپ ﷺ کو بیک وقت بطور نبوت عطا ہوئی تھیں ان میں سے ایک بھی آپ ﷺ نے نہیں سیکھی تھی اس لئے کہ نبوت و رسالت کوئی سیکھنے کی چیز ہی نہ تھی ۔ نبوت کیا تھی ؟ ایک طیعن امر تھا جو ہونے والے نبی میں ودیعت کیا جاتا تھا : جس کو اللہ تعالیٰ نے نبی ورسول بنانا ہوتا تھا اس کی فطرت میں یہ چیز ودیعت کردی جاتی تھی اس لئے کہ نبوت و رسالت کوئی کسبی چیز ہی نہیں تھی ہر نبی ورسول کو اس وقت سے پہلے جب اس کو نبی ورسول بنا نہ دیا جاتا وہ نبی ورسول بنایا جانے والا بھی نہیں جانتا تھا کہ میں نبی یا رسول بنایا جاؤں گا بلکہ اس کو اس وقت ہی معلوم ہوتا جب اس کو ناموس نبوت و رسالت مخاطب کرتا اور اسی وقت اس کے اندر کی طبعی قوت بیدار ہوجاتی جس طرح باقی طبعی قوتیں بھی جو انسان کے اندر موجود ہیں لیکن ایک خاص وقت ایسا آتا ہے کہ وہ بیدار ہوجاتی ہیں اور جب ان میں سے کوئی قوت بیدار ہوتی ہے تو اس کے ساتھی وہ ذمہ داری اس پر لازم ہوجاتی ہے جو اس کی بیداری سے پہلے لازم نہیں ہوتی ۔ ایک انسان کا بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے اندر ماں ‘ باپ بننے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اسی طرح عقل وفکر کی قوت اور صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے اور اسی طرح اس کے اندر چلنے پھرنے ‘ اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کلام کرنے اور کلام سکھانے ‘ کھلانے پلانے اور کمانے کی ساری صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں لیکن جس قوت وصلاحیت کے بیدار ہونے کا وقت آتا ہے تو وہ بیدار ہوتے ہی وہ کام شروع کردیتا ہے اور اسی طرح وہی بچہ جو نوزائیدہ ہونے کے باعث ان ساری چیزوں سے محروم تھا آہستہ آہستہ ان سب کی سب صلاحیتوں سے بہرہ ور ہوجاتا ہے پہلا مرحلہ بیٹھنے کا ‘ دوسرا مرحلہ ایں وآں کرنے کا اور تیسرا مرحلہ کھڑا ہونے کا ‘ چوتھا مرحلہ قدم اٹھا کر رکھنے کا جب شروع ہوجاتا ہے تو ساتھ ہی وہ ایں وآں ‘ بابا ‘ امی ‘ ماما ‘ ماموں اور چچا میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پھر وہ رسم ’ بسم اللہ “ تک پہنچ جاتا ہے اور مسجد ومکتب سے گزرتا اور کالج اور یونیورسٹی تک پہنچ جاتا ہے اور ادھر ساتھ ہی اس میں ماں ‘ باپ ہونے کی صلاحیت بھی انگڑائیاں لینا شروع کردیتی ہیں اور پھر جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں کیونکہ اب عقل بھی بیدار ہے سمجھ سوچ بھی مکمل ہے ‘ نفع ونقصان کی سمجھ بھی پیدا ہوجاتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ خود کفیل ہو کر ساری ہی باتوں میں کفیل ہوجاتا ہے ، غور کرو کہ یہ ساری چیزیں اپنے اپنے وقت پر بیدار ہوئیں صحیح لیکن کیا پہلے روز سے یہ اس بچہ میں ودیعت نہیں کردی گئی تھیں ؟ جس طرح یہ قوتیں پہلے ہی روز سے ودیعت کی گئی تھیں اور پھر ہر انسان میں وہ موجود ہونے کے باوجود ایک ہی طاقت وقوت کی نہیں تھیں بلکہ ان میں فی نفسہ کمی بیشی اور ان کے بیدار ہونے میں وقت کی کمی بیشی بھی موجود تھی اور اسی طرح وہ بیدار ہوئیں بعینہ نبوت و رسالت کی قوت وصلاحیت بھی جن کو نبی ورسول بنایا جانا علم الہی میں موجود تھا ان میں یہ صلاحیت بھی ودیعت تھی جو اپنے وقت پر اجاگر ہوگئی اور اس طبعی صلاحیت کے تحت ان کو نبوت و رسالت پر فائز کردیا جاتا تھا اور اسی کا نام اصطلاح شریعت میں معبوث ہونے سے تعبیر کیا جاتا تھا ۔ نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ میں بھی یہ نبوت و رسالت کی طبعی طاقت وصلاحیت روز اول ہی سے ودیعت کی جا چکی تھی لیکن جب اس کے اظہار ہونے کا وقت آیا تو آپ ﷺ نے تخلیہ کو پسند کرنا شروع کردیا اور تفکر و تدبر کی طبعی قوت بیدار ہونا شروع ہوگئی جب وہ اپنی انتہا کو پہنچی تو وہ طبیہ چیز جس کا ملکہ نبوت و رسالت سے تعبیر کیا جاتا تھا وہ بیدار ہوئی اور اس کی انگڑائی کے نتیجہ میں ملک نبوت کے لئے ” فغطنی “ کا استعارہ استعمال ہوا اور اس تیسرے جھٹکے میں وہ مکمل طور پر بیدار ہوگیا اور ایک ہی بار آپ ﷺ کو تینوں چیزوں سے نوازا گیا اور آج سے آپ ﷺ نبوت و رسالت پر فائز ہوگئے ، آپ ﷺ کے لئے باوجود ناخواندہ ہونے کے نہ تو پڑھنا ہی کوئی مشکل رہا ‘ نہ ہی لکھنا اور نبوت و رسالت کا پیغام پہنچانا اور آپ ﷺ نے یہ تینوں کام نبوت و رسالت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے جس قدر ضروری تھے وہ شروع دیئے اور بحمد اللہ اس ذمہ داری کو آپ ﷺ نے خوب پورا کیا اس طرح بلاشبہ آپ ﷺ امی تھے اور امی ہونے کے چار مفہوم ہیں جو ہم نے عروۃ الوثقی کی جلد سوم میں سورة الاعراف کی آیت 157 کے تحت بیان کردیئے ہیں وہاں ملاحظہ کریں ۔ آپ ﷺ میں پائے جاتے تھے اسی لئے لاریب آپ ﷺ امی تھے لیکن آپ ﷺ جاہل نہیں تھے بلکہ سب انسانوں سے زیادہ جاننے والے تھے اور اس جاننے کے ساتھ آپ ﷺ لکھنے اور پڑھنے والے بھی ہوگئے اور یہی وہ معجزہ نبوت ہے جو آپ ﷺ کے معاصرین کے سامنے پیش کیا گیا کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ اس سے پہلے کوئی کتاب نیث پڑھتے اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے (اگر آپ پڑھتے اور لکھتے ہوتے تب ان کا یہ الزام درست ہوتا) اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست شک میں پڑ سکتے تھے ۔ “ اچانک آپ ﷺ کا ان لوگوں کے سامنے پیغام رسالت ونبوت پیش کرنا ہی ان کے لئے بطور نشان کافی تھا اگر ان کو ماننا اور تسلیم کرنا ہوتا تو مزید نشانیاں طلب کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ سو نشانیوں کی ایک نشانی ان کے کافی تھی ، پھر جن لوگوں کا ارادہ ماننے کا نہ ہو ان کو آخر کون منوا سکتا ہے ۔ بلاشبہ آپ ﷺ نے کسی انسان سے نبوت سے پہلے یا بعد لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا : بلاشبہ آپ ﷺ کے لئے کسی انسان کے سامنے تہ زانوں کرنے اور پڑھنا اور لکھنا سیکھنے سے آج بھی نفی کی جانی لازم وضروری ہے لیکن جس طرح بغیر کسی کسب وکمائی کے آپ ﷺ کو نبوت و رسالت عطا ہوئی اس ضمن میں لکھنا اور پڑھنا بھی ملا پھر جب آپ ﷺ کی نبوت و رسالت سے اقرار ہے تو آپ ﷺ کے لکھنے اور پڑھنے سے کیوں انکار کیا جائے جس نے اب بھی آپ ﷺ کے لکھنے اور پڑھنے سے انکار کیا بلاشبہ وہ نبوت و رسالت کے دو حصوں سے انکاری ہوگیا اور جس نے آپ ﷺ کے پڑھنے کا تو اقرار کیا ‘ لکھنے کو تسلیم نہ کیا تو اس نے نبوت کے تیسرے حصہ سے انکار کردیا اگرچہ اس کا یہ انکار کم فہمی اور ناسمجھی ہی کی وجہ سے کیوں نہ ہو ۔ اگر آپ کو اس معاملہ میں اکثریت کا ہوا آڑے ہے تو اس کی قرآن کریم نے کئی بار وضاحت فرما دی کہ جب سے اس دنیا کا نظام قائم ہے اس میں کم فہموں اور کم عقلوں ہی کی تعداد زیادہ ہے اس کی پوری وضاحت ہم پیچھے عروۃ الوثقی جلد سوم میں سورة الانعام کی آیت 116 میں کرچکے ہیں ۔ بنات قلت و کثرت کی نہیں حقیقت کو سمجھنے کی ہے اور وہ یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ باوجود کسی انسان سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھنے کے نبوت سے پہلے تو لکھ اور پڑھ نہیں سکتے تھے ، ہر وہ شخص جس کی کچھ بھی نظر احادیث پر ہے اور اس نے علم حدیث سیکھایا پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ احادیث میں احد ‘ اثنین ‘ ثلاثۃ ‘ اربعۃ ‘ خمسۃ ‘ ستۃ ‘ سبعۃ ‘ ثمانیۃ ‘ تعسعۃ ‘ عشر ‘ احدعشر ‘ اثنا عشر ‘ عشرون ‘ ثلاثین ‘ ربعین ‘ خمسین ‘ ستین ‘ سبعین ‘ ثمانین ‘ تسعون ‘ مائۃ ‘ ثلاث مائۃ اربع مائۃ ‘ الف ‘ الفین ‘ ثلاثۃ الاف ‘ اربعۃ الاف ‘ خمسۃ الاف ‘ خمسین الف ‘ ستین الف (ساٹھ ہزار) الف الف (دس لکھ) اربعین الف الف (چار کروڑ) تک کی گنتی آئی ہے اور یہ کسی ناخواندہ اور نہ لکھ پڑھ سکنے والے انسان کے بس کی بات نہیں بلاشبہ اس طرح کی گنتی کو وہی بیان کرسکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی کچھ لکھایا اور پڑھایا ہو کیونکہ آپ ﷺ کو ان اعداد کے بولنے ‘ پڑھنے اور لکھنے کا معلوم تھا اور اس معاملہ میں آپ انجان نہیں تھے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے سورة یونس کی آیت 5 ‘ سورة بنی اسرائیل کی آیت 12 میں آپ ﷺ کے متعلق شمسی وقمری مہینوں ‘ سالوں اور صدیوں کے جاننے والے کی وضاحت کردی ہے کہ آپ ﷺ کو ان ساری باتوں سے اچھی طرح واقفیت تھی اور قمری وشمسی مہینوں اور سالوں کے فرق سے آپ ﷺ اچھی طرح آگاہ تھے ، وضاحت کے لئے عروۃ الوثقی جلد چہارم ‘ سورة یونس جلد پنجم ‘ سورة بنی اسرائیل کی آیت 12 کی تفسیر ملاحظہ کریں ۔ یہ بات ثابت ہے کہ آپ ﷺ لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے اور آپ ﷺ کو سکھانے والا اللہ تعالیٰ تھا : آپ ﷺ نے ناخواندہ لوگوں کو اس طرح تعلیم دی ہے جس طرح ایک خواندہ ‘ ناخواندہ آدمی کو تعلیم دیتا ہے چناچہ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے رمضان المبارک کے مہینہ کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کے اشارہ کے ساتھ ” الشھر ھکذا وھکذا کے الفاظ ادا کئے اور ہاتھوں کو تین بار کھول کر اور بند کرکے بتایا کہ مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے اور دوسری بار پھر آپ ﷺ نے یہی طریقہ اختیار کیا لیکن دوسری بار میں آخری دفعہ ایک انگوٹھے کو بند کردیا اور اس طرح ان ناخواندہ لوگوں کو بتایا کہ کبھی مہینہ 29 دن کا بھی ہوتا ہے ۔ تعجب ہے کہ یہ مثال ہمارے مفسرین اور شارحین احادیث نے آپ ﷺ کی ناخواندگی پر محمول کی ہے جو سراسر غلط ہے ناخواندہ ‘ خواندہ لوگوں کے سامنے مثال دینے کے لئے یہ صورت اختیار نہیں کرتا بلکہ ایک خواند ہی ناخواندہ لوگوں کو اس طرح سمجھا سکتا ہے ۔ لیکن افسوس کہ ہم نے شاید بات کرنے سے پہلے کبھی سوچنے کی کوشش ہی نہیں کی ورنہ ہماری حالت ایسی نہ ہوتی کہ جو منہ میں آیا بیان کردیا اگرچہ زبان کچھ کہہ رہی ہو اور ہم کچھ کہنا چاہتے ہوں ۔ قرآن کریم اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ نبوت و رسالت ہبہ کردی گئی تو بلاشبہ وہ سب کچھ جان گئے جو نبوت و رسالت کے لئے جاننا ضروری تھا جیسا کہ ارشاد الہی ہے کہ : (آیت) ” وَکَذَلِکَ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ رُوحاً مِّنْ أَمْرِنَا مَا کُنتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیْمَانُ وَلَکِن جَعَلْنَاہُ نُوراً نَّہْدِیْ بِہِ مَنْ نَّشَاء مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّکَ لَتَہْدِیْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (الشوری 42 : 52) ” اور اسی طرح اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے تمہیں کچھ معلوم نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں اور یقینا تم سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کر رہے ہو ۔ “ اس آیت میں آپ ﷺ کے کتاب اور ایمان جاننے کی نفی کی گئی ہے کہ آپ ﷺ نہ تو کتاب سے شناساں تھے اور نہ ہی ایمان کے بارے میں آپ ﷺ کو کچھ معلوم تھا ‘ لیکن کب ؟ نبوت سے پہلے ‘ کیا نبوت کے بعد بھی آپ ﷺ نے ان دونوں چیزوں کو نہیں جانا تھا ؟ کیوں نہیں ان دونوں چیزوں کے جاننے ہی کا نام نبوت و رسالت ہے ، جس طرح اس آیت میں کتاب و ایمان کی نفی ہے اسی طرح سورة العنکبوت کی زیر نظر آیت میں پڑھنے اور لکھنے کی نفی کئی گئی ہے کہ آپ ﷺ نہ تو لکھنا جانتے تھے اور نہ پڑھنا لیکن کب ؟ نبوت سے بات کتنی واضح تھی لیکن علماء کرام اس معاملہ میں ایک جگہ اڑ گئے اور ایسے اڑے کہ سمجھنے کا نام ہی نہ لیا بلکہ گزشتہ دور میں جس نے اس کی اس طرح وضاحت کی جس طرح ہم وضاحت کر رہے ہیں تو اس وقت کے علماء کرام نے ان کو وہ مار ماری کہ وہ آج تک چیختے نظر آتے ہیں اور اس طرح چیختے ہوئے نظر آنا علمی طور پر ہے ۔ چناچہ اس جگہ ہم ایک مناظرہ کا ذکر کرتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوجائے گی ۔ مناظرہ جو ابو الولید الباجی اور علماء مصر کے درمیان ہوا : براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ذیقعدہ 6 ہجری میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا جب آپ ﷺ مکہ کے قریب ایک مقام پر پہنچے اور مکہ والوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے آپ ﷺ کو اور دوسروں کو روکنے کی کوشش کی اسی طرح بات بڑھی تو ایک فیصلہ نبی کریم ﷺ اور قریش مکہ کے درمیان طے پایا جس میں جو شروط طے ہوئیں ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس سال عمرہ نہیں کریں گے بلکہ اس جگہ سے واپس چلے جائیں گے لیکن آئندہ سال مسلمانوں کو عمرہ کی اجازت ہوگی تاہم مسلمان مکہ میں تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہریں گے یہ اور اسی طرح کی دوسری شرطیں جب زبانی طے ہوگئیں تو ان کو تحریر کرنے کے لئے کہا گیا پھر جب ان شروط کو لکھنے کے لئے بےٹھ تو نبی کریم ﷺ کی طرف سے اس پر لکھا گیا کہ ” ھذا ما قاضانا علیہ محمد رسول اللہ ﷺ تو مکہ کے لوگوں نے اعتراض کردیا کہ ہم جب آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے تو اس تحریر پر آپ کی رسالت کا ذکر کیوں ہے جب کہ آپ کو ہم محمد بن عبداللہ جانتے ہیں تو آپ ﷺ اس معاہدہ میں یہی تحریر کریں ۔ رسول اللہ ﷺ نے علی ؓ کو کہا کہ آپ محمد رسول اللہ میں سے ” رسول اللہ “ کے لفظ کو ہٹا دیں اور اس کی جگہ محمد بن عبداللہ تحریر کردیں تو علی ؓ نے اس کو ہٹانے سے گریز کات تو ” فاخذ رسول ﷺ ال کتاب فلیس یحسن یکتب فکتب ھذا ما قاضی محمد بن عبداللہ لا یدخل مکۃ السلام الا السیف فی القراب (آخر تک) رسول اللہ ﷺ نے ان کے ہاتھ سے کاغذ لے لیا اگرچہ آپ ﷺ کو خوبصورت لکھنا نہیں آتا تھا لیکن آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس پر لکھنا شروع کیا کہ یہ وہ صلاح نامہ ہے ۔ اس پر محمد عبداللہ کے بیٹے نے فیصلہ کیا کہ آپ مکہ میں ہتھیار نہیں لائیں گے صرف تلواریں لاسکتے ہیں لیکن وہ بھی غلاف میں بند ہوں گے (اس طرح آخر تک) آپ ﷺ نے اس کو لکھ دیا ۔ (صحیح بخاری پارہ 17 باب عمرۃ القضا) اس حدیث کے پیش نظر سورة العنکبوت کی زیر بحث آیت سے امام ابوالولید الباجی نے استدلال کیا کہ آپ ﷺ لکھنا جانتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کو لکھا ‘ چناچہ تحریر ہے کہ ” وقد تسمک بظاھر ھذہ الروایۃ ابو الولید الباجی فادعی ان النبی ﷺ کتب بیدہ بعد ان لم یکن بحسن یکتب فشنع علی علماء الاندلس فی زمانہ ورموہ بالذندقۃ وان الذی قالہ یخالف القران حتی قائل قائلھم برئت ممن شری دنیا بالاخرۃ وقال ان رسول اللہ قد کتب فجمعھم الامیر فاستظھر الباجی علیھم بما لدیہ من المعرفۃ وقال لامیر ھذا لا ینافی القرآن بل یوخذ من مفھوم القران لانہ قید النفی بما قبل ورد القران فقال وما کنت تتلوا من قبلہ من کتاب ولا تحط بیمینک و بعد ان تحققت امیۃ وتقررت بذلک معجزتہ وامن الارتیاب فی ذلک لا مانع من ان یعرف الکتابۃ بعد ذلک من غیر تعلیم فنکون معجزتہ اخری وذکر ابن دحیۃ ان جماعۃ من العلماء وافقوا الباجی فی ذلک منھم شیخہ ابوذرالھروی وابو الفتح النیسابوری واخرون من علماء افریقۃ وغیرھا (بخاری مع النووی پارہ 17 ص 22) ” صلح حدیبیہ کے موقع پر جو تحریر رسول اللہ ﷺ نے لکھی جس کا ذکر حدیث شریف میں ہے اس سے ابوالولید الباجی نے استدلال کیا کہ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھ سے تحریر کرسکتے تھے اگرچہ وہ زیادہ خوشخط نہ ہوں یا یہ کہ زود نویس نہ ہوں اور بلاشبہ آپ کا لکھنا معجزانہ لکھنا تھا کہ آپ ﷺ نے کسی سے لکھنا اور پڑھنا سیکھا نہیں تھا ۔ باجی صاحب کا یہ کہنا تھا کہ علمائے اندلس آپ کے خلاف ہوگئے اور آپ کو ملحد اور زندیق کہا گیا اور لوگوں میں تشہیر کی کہ الباجی کا یہ مسلک قرآن کریم کے خلاف ہے کیونکہ قرآن کریم میں آپ ﷺ کو امی بتایا گیا ہے ۔ حاکم وقت کو جب یہ شکایت پہنچی تو اس نے الباجی صاحب اور علماء کے درمیان مناظرہ کرایا ۔ مناظرہ میں الباجی صاحب نے علماء اندلس کے نظریہ کا رد کرتے ہوئے کہا کہ میرا یہ نظریہ قرآن کریم کے خلاف نہیں بلکہ اس کے موافق ہے اور یہ کہ صرف موافق ہی نہیں ہے بلکہ اس سے ثابت ہے ۔ پھر الباجی صاحب نے دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم میں (من قبلہ) کی قید لگا کر صاف بتا دیا ہے کہ قرآن کریم کے نزول سے پیشتر آپ ﷺ لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے تھے اور اس کلام سے خود بخود واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے ساتھ ہی آپ ﷺ کو لکھنا اور پڑھنا براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھا دیا گیا تھا کیونکہ یہ لزومات نبوت و رسالت سے تھا ۔ ابو الولید الباجی صاحب نے کہا کہ یہ تو آپ کے معجزات نبوت میں سے ایک بہت بڑا معجزہ تھا جو آپ کے زمانہ کے لوگوں کے لئے ایک زبردست دلیل تھا کہ آپ ﷺ نے کسی انسان سے ہرگز کوئی چیز نہ سیکھی تھی اور اس کے باوجود آپ ﷺ ضرورت کے لئے لکھتے بھی اور پڑھتے بھی اور یہ آپ ﷺ کی امیت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے لئے زبردست دلیل ہے ابن دحیہ نے کہا کہ الباجی صاحب کے دلائل غالب رہے جس سے الباجی کامیاب ہوئے بلکہ آپ کے زمانہ کے بہت سے علماء نے آپ کا مسلک تسلیم کرلیا جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں شیخ ابو ذرالہروی اور ابو الفتح النیسابوری اور قاضی ابو جعفر سمنانی وغیرہ خاص کر قابل ذکر ہیں ۔ “ خصائص الکبری ج 2 ص 236 میں بھی اس واقعہ کی تفصیل ذکر کی گئی ہے اور بخاری شریف کی اس حدیث کے ضمن میں امام نووی شرح مسلم میں ص 105 ج 2 قاضی عیاض (رح) سے نقل کرتے ہیں کہ احتج بھذا اللفظ بعض الناس علی ان النبی ﷺ کتب بذلک بیدہ علی ظاھر ھذا للفظ ” کہ ظاہر الفاظ سے تو یہی بات واضح اور روشن ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے تحریر فرمایا جیسا کہ بہت سے ذی علموں نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ یزید بن عبداللہ سے مروی ہے کہ ہم نے ایک شخص کے پاس ایک خط لکھا ہوا دیکھا جو اس طرح تحریر تھا کہ ” من محمد رسول اللہ الی بنی زھیربن اقیش انکم ان شھدتم ان الا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ﷺ واقمتم الصلوۃ واتیم الزکوۃ ادیتم الخمس من المغنم وسھم النبی ﷺ وسھم الصفی انتم امنون بامان اللہ ورسولہ تو اس سے دریافت کیا کہ یہ تحریر تجھے کس نے لکھ کردی ہے تو اس نے کہا یہ نبی کریم ﷺ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے اس سے کہا گیا کہ ہاں ! آپ ﷺ نے لکھوا کردی ہوگی تو وہ کہنے لگا کہ نہیں یہ تو رسول اللہ ﷺ کے اپنے دست مبارک سے لکھی گئی تھی ۔ (ابو داؤد ج 2 ص 66) ” ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجاعہ بن مرارہ کو ایک خط لکھ کردیا جسے اس کے پوتے ہلال نے خلفیہ عمر بن العزیز کو دکھایا تو فاخذہ عمرقبلہ ووضع علی عینیہ ومسح بہ وجھہ وجاء ان یصیب وجھہ موضع ید رسول اللہ ﷺ انہوں نے اسے پکڑ کر چوما اور سر آنکھوں پر لگایا کہ میں قربان جاؤں یہ میرے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں کا لکھا ہوا ہے ۔ “ (الاسماء ولکنی ص 111 ج 2) صلح حدیبیہ کے نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ جا کر بادشاہوں کو خطوط لکھے اس وقت تک ابھی انگشتری آپ ﷺ کے پاس موجود نہیں تھی اور انگوٹھا کا رواج بھی نہ تھا فقط تحریر پر دستخط ثبت ہوتے تھے لہذا آپ ﷺ نے بعض تحریریں لکھیں اور دستخط بھی کئے جس کا ثبوت صحیح روایات میں موجود ہے علاوہ ازیں درمنثور ج 5 ص 148 بحوالہ سنن بیہقی عن عبداللہ بن مسعود ؓ ‘ در منثور بحوالہ عبدالرزاق ‘ ابن جریر ‘ ابن منذر ‘ ابن ابی حاتم سے مروی ہے ۔ درمنثور ص 131 ج 3 بحوالہ ابن ابی حاتم ‘ ابو شیخ ابراہیم النخعی سے مروی ہے ‘ فتح الباری ص 22 پارہ 17 بحوالہ ابن ابی شیبہ وعمر بن شیبہ اور خصائص الکبری ص 236 ‘ ج 2 میں بحوالہ طبرانی ص 131 ج 2 میں بحوالہ ابو الشیخ مجاہد سے مروی ہے ۔ فتح الباری پارہ 17 ص 22 میں بحوالہ ابن ابی شیبہ اور یونس بن میسرہ سے مروی ہے کہ اس نے ابو کبثہ سلومی کی زبان سے سہل بن حنظلہ کا بیان سنا کہ رسول اللہ ﷺ معاویہ سے خط لکھوا کر اقرع اور عیینہ کو دیا تو عیینہ نے کہا کہ اللہ ہی جانتا ہے اس نے کیا لکھ دیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اس خط کو لے کر خود پڑھا اور فرمایا کہ جو کچھ میں نے لکھوایا ہے اس نے وہی لکھا ہے ۔ یونس (رح) نے کہا اس پر ہمارا خیال واضح ہوا کہ نبوت کے بعد اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کو تلاوت کی طرح کتابت بھی سکھا دی تھی اور یہ بات ہم نے عرض کی ہے اور یہی زیر نظر آیت سے واضح ہو رہا ہے اور یہ ہم بیان کر رہے ہیں ۔ وہم پرست ہم معجزات کے انکار کر الزام دیتے ہیں اور خود سو معجزات کے ایک معجزہ کو تسلیم کرنے سے عاری ہیں ۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ ۔ ہم کرتے ہیں آہ تو ہوتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا :
Top