Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 101
وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ١ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتُ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَفِيْكُمْ : اور تمہارے درمیان رَسُوْلُهٗ : اس کا رسول وَمَنْ : اور جو يَّعْتَصِمْ : مضبوط پکڑے گا بِاللّٰهِ : اللہ کو فَقَدْ ھُدِيَ : تو اسے ہدایت دی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا راستہ
اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم کفر کی راہ اختیار کرو جب کہ اللہ کی آیتیں تمہیں سنائی جا رہی ہیں اور اس کا رسول تم میں موجود ہے اور یاد رکھو جو شخص مضبوطی کے ساتھ اللہ کا ہو رہا تو بلاشبہ اس پر سیدھی راہ کھل گئی
تم کفر کی راہ کیسے اختیار کرتے ہو جبکہ اللہ کی آیتیں تمہیں سنائی جارہی ہیں ؟ : 194: ” كیف “ استفہامیہ تعجب کے لیے ہے یعنی تعجب ہے کہ تم کفر کی طرف جائو حالانکہ اللہ کی آیات تم کو پڑھ کر سنائی جارہی ہیں اور کسی چیز کا سننا اس وقت مفید ہوسکتا ہے جب اس کو سن کر اس کو سمجھ کر اس کے مطابق علم کرنے کی کوشش کی جائے ورنہ بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ہے۔ تم انسان ہو پھر اس سے آگے بڑھ کر تم مسلمان بھی ہو اس پر طرہ یہ کہ تم کو اللہ کی آیات سنائی جارہی ہیں کیوں ؟ اس لیے کہ تم ان کو سمجھو اور اس کے مطابق عمل کرو۔ مقام غور ہے کہ آج ہم میں کتنے ہیں جو قرآن کریم کو پڑھتے یا سنتے ہیں ؟ پھر پڑھنے اور سننے والوں میں کتنے ہیں جو سمجھتے یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ؟ اور پھر کتنے ہیں جو سمجھ جانے کے بعد اس پر عمل کرتے ہیں ؟ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم مسلمانوں کی اکثریت کو یہ باور کرایا دیا گیا ہے کہ قرآن کریم صرف پڑھنے کے لیے ہے بس پڑھا اور مروں کو بخش دیا۔ گویا قرآن کریم زندوں کے لیے نہ ہوا بلکہ مرنے والوں والوں کو بخشوانے کے لیے ہوا۔ تعجب پر پھر تعجب ہے کہ ایسا کیونکرسمجھ لیا گیا ؟ اور کس نے سمجھا دیا ؟ سارے سوالوں کا ایک ہیجواب ہے کہ بہت سے مذہبی پیشواؤں نے۔ اس لیے کہ یہی تفہیم کرا دینا ان کا سرمایہ حیات ہے اور یہ لوگ ان انشورنس کمپنیوں کے مالک ہیں جہاں مردوں کی بخشش کی انشورنس کرائی جاتی ہے۔ جس کو تعجب ہوتا ہے ہوا کرے ان کی بلا سے ان کو گاہک ملتے ہیں اور ملتے رہیں گے۔ رہیں اللہ کی آیتیں وہ تو وہ بھی پڑھتے ہیں اور دن رات پڑھتے ہیں ور اسپیکر لگا کر پڑھتے ہیں اور قبرستان میں جاجا کر پڑھتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ ان آیتوں کو پڑھنے اور سمجھنے والا اللہ کا رسول ہے : 195: ” مطلب یہ ہے کہ تم کفرکیراہ کیونکر اختیار کرسکتے ہو کہ ” تم میں اللہ کے رسول بنفس نفیس موجود ہیں ؟ “ یعنی محمد رسول اللہ a سردست تو بفنس نفیس تشریف فرما ہیں اور تمہارا ہر شبہ مٹا سکتے ہیں اور راہ بتا سکتے ہیں باقی ان کے بعد ان کے آثار و سنن بھی یہی کام دیں گے جو وہ خود انجام دے رہے ہیں اس لیے کہ اب نبوت تو ختم ہوچکی جب تک دنیا باقی ہے اس وقت تک محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت قائم ہے اور قائم رہے گی۔ کتاب اللہ کا نزول بھی اس وقت تک جاری رہا جب تک خود نبی اعظم و آخر ﷺ زندہ موجود تھے اور آپ ﷺ کے اٹھا لیے جانے کے بعد گویا نزول قرآن کریم ختم ہوگیا۔ وہ آیتیں جو اس وقت پڑھی جاتی تھیں اب بھی اسی طرح پڑھی جائیں گی اور ان آیات سے جو کام اس وقت لیا جاتا تھا اب بھی لیا جائے گا بالکل اسی طرح جب تک محمد رسول اللہ ﷺ موجود تھے آپ ﷺ کا ہر ارشاد فیصلہ کن اور اسلام میں حجت تھا بالکل اسی طرح آپ ﷺ کے اٹھائے جانے کے بعد بھی آپ ﷺ کے ارشادات فیصلہ کن اور دین اسلام میں حجت ہیں اور رہیں گے۔ ” وَفِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ “ کے الفاظ سے اگر کوئی یہ سمجھے کہ نبی کریم ﷺ حاضر و ناظر ہیں تو یہ اس کی یا تو جہالت ہوگی یا دھوکہ دہی۔ اس لیے کہ کسی حاضر وناظر انسان کے لیے یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ وہ حاضر و ناظر ہے یہ الفاظ ادا ہی اس جگہ ہوں گے جہاں کوئی انسان حاضر و ناظر نہ ہو اور عقیدةً اس کو حاضر وناظر بتایا جائے اور یہ بات محتاج بیان نہیں کہ نبی کریم ﷺ انسان تھے۔ یاد رکھو کہ جو اللہ کا ہوگیا اس پر سیدھی راہ کھل گئی: 196: ” جو شخص مضبوطی کے ساتھ اللہ کو پکڑتا ہے۔ “ یعنی مضبوطی کے ساتھ اللہ کا ہو کر رہتا ہے تو اس کے لیے سیدھی راہ کھل جاتی ہے کسی کا ہو کر رہنے کا مطلب ہر شخص جانتا ہے۔ عصمت کے منی ہیں حفاظت اور کسی چیز کی حفاظت کرنے سے اس کا بچاؤ ہوجاتا ہے لہٰذا عاصم کے معنی ہوئے بچانے والا یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کے ذریعہ سے اپنا بچاؤ کرنے والا۔ اعتصام باب افتعال کے معنی ہوئے مضبوطی سے کسی چیز کو پکڑ لینا تاکہ ہلاکت سے محفوظ ہوجائے۔ مطلب واضح ہوگیا کہ جس شخص نے بھی اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑ لیا وہ یقینا کامیاب ہوگیا اور آگ دوزخ سے کوہ بچالیا گیا۔ اس لیے کہ یہی وہ کامیابی ہے جو ساری کامیابیوں سے بڑی کامیابی ہے۔ بلاشبہ لوگ مال اور دولت عہدہ و اقتدار کو کامیابی تسلیم کرتے ہیں حالانکہ یہ ساری چیزیں آزمائش بھی ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں اسی لیے قرآن کریم کی روشنی میں اس چیز کا اعلان کیا گیا ہے کہ ” جو شخص آگ سے بچالیا گیا وہ حقیقی طور پر کامیاب ہوگیا اس لیے کہ اس نے بڑی کامیابی حاصل کرلی “ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا۔ اس لیے زیر نظر آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ” بلاشبہ اس پر سیدھی راہ کھل گئی“ اور وہ شخص کامیاب و کامران ہوگیا۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ اس طرح ارشاد فرمایا : ” لوگو ! تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے برہان آگئی اور ہم نے تمہاری طرف چمکتی ہوئی روشنی بھیج دی پس جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس کا سہارا مضبوط پکڑ لیا تو وہ انہیں عنقریب اپنی رحمت کے سائے میں داخل کردے گا اور ان پر اپنا فضل کرے گا اور انہیں اپنے تک پہنچنے کی راہ دکھادے گا ایسی راہ جو بالکل سیدھی راہ ہے۔ “ (النساء 4 : 174 ، 175) اس آیت میں دین حق کو ” برہان “ فرمایا یعنی سرتا سر دلیل و حجت اور قرآن کریم کو ” نور مبین “ کہا یعنی واضح اور آشکارا روشنی۔ ظاہر ہے کہ ” برہان “ کے ساتھ جہل و گمان اکٹھا نہیں ہو سکتا اور ” نور مبین “ کے ساتھ تاریکی و کو ری راہ نہیں پا سکتی۔ ایک جگہ ارشاد ہوا : ” جن لوگوں نے توبہ کرلی اور اپنی عملی حالت سنوار لی اللہ کے حکم پر مضبوطی کے ساتھ جم گئے اور اپنے دین میں صرف اسی کے ہوگئے تو بلاشبہ ایسے لوگ مؤمنوں کی صف میں شامل ہوگئے اور قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو اجر عطا فرمائے ایسا اجر جو بہت ہی بڑا اجر ہوگا۔ “ (النساء 4 : 164)
Top