Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور ضروری ہے کہ تم میں ایک جماعت ایسی ہو جو بھلائی کی [ طرف دعوت دینے والی ہو وہ نیکی کا حکم دے ، برائی سے روکے اور بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جو کامیابی حاصل کرنے والے ہیں
اس ہدایت پر قائم رہنے کے لیے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟ : 201: اس آیت میں اس بات کی پوری پوری وضاحت فرما دی کہ مسلمانوں کو اجتماعی کامیابی کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ فرمایا اجتماعی کامیابی کے لیے یہ گر اچھی طرح یاد کرلو کہ تم میں ایک جماعت بطور نظم و ضبط کے بطور گروہ بندی ہر وقت موجود ہونا چاہیے جس کا نام دعوت الی الخیر ہو یعنی تم من حیث القوم تو ایک ہی قوم کے افاد اور ایک دین وملت سے وابسطہ ہو لیکن بلحاظ ذمہ داری ایک جماعت مخصوص ہونی چاہیے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتی رہے۔ وہ لوگ خود اصلاح نفس کریں ایک دوسرے سے شیرو شکر رہیں اور قوم کے دو سے لوگوں کو اصلاح نفسی اور اصلاح حال کی دعوت دیں اور ان کو اس رسی خداوندی کو مل کر پکڑنے کی ہدایت و تلقین کریں بلکہ ایک حد تک مجبور کریں کہ وہ سب ایک جسم کے مختلف اعضاء کی مانند ہیں۔ دعوت الی الخیر کیا ہے ؟ اس سے مراد ہے دعوت الی الاسلام یا دعوت الی القرآن ویسے بھی خیر کے معنی بھلائی کے ہیں اور حقیقی بھلائی کی سب راہیں قرآن ہی میں ہیں۔ اس لیے اس لیے اس جگہ یہ ہدایت فرمائی جارہی ہے کہ مسلمانوں میں ایک جماعت ہمیشہ ایسی موجود رہے جو دعوت الی الاسلام کے کام میں لگی رہے۔ ابتدائے اسلام کا زمانہ تو وہ تھا کہ ہر ایک مسلمان کے اندر ایک ایسی روح دعوت الی الاسلام کی پھونکی گئی تھی کہ وہ سب کے سب ہی داعیان اسلام تھے اور اسی جوش اور تڑپ کو لے کر وہ دنیا کے مختلف ممالک اور مختلف شہروں اور جزیروں میں نکل گئے اور بہت تھوڑے عرصہ میں دنیا میں ایک انقلاب عظیم پیدا کردیا اور اسلام کا نام دنیا کے دور دراز ملکوں میں روشن کردیا ہر ملک اور ہر شہر میں اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا۔ هاں ! اس کے بعد ایک ایسا زمانہ آیا کہ بادشاہوں اور امراء کی توجہ دعول الی الاسلام کی طرف سے کم ہوتی گئی اس لیے کہ وہ اپنے تعیشات میں گرفتا ہوگئے لیکن علماء کا ایک گروہ اللہ کے دین کا کام سرانجام دیتا رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں انحطاط آیا تو علماء کی توجہ بھی زیادہ تر فروعی اختلافات میں صرف ہونے لگی اور بادشاہوں نے بھی کسی حد تک اس میں دلچسپی لی اور یہ ایک شغل بن گیا اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے اور انعامات حاصل کرنے کے لیے اس کو باقاعدہ بطور فن سیکھا جانے لگا۔ تاہم بہت سے اللہ کے بندے علماء حق ان تمام جھگڑوں سے الگ ہوکردعول الی الاسلام کی دعوت میں مصروف رہے۔ بہت سے وہ لوگ ہیں جن کے ناموں پر آج بھی ہزارہا لوگ قربان ہونے کے لیے تیار ہیں اور ان کی یہ عزت محض اسلام کی خدمت گزاری کی وجہ سے تھی اور ہے۔ دراصل وہ ایک قسم کے روحانی بادشاہ تھے اور جب دنیوی بادشاہوں نے دعوت الی الاسلام یا دعوت الی القرآن کا کام چھوڑ دیا تو ان روحانی بادشاہوں نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا اور خوب سر انجام دیا ۔ وقت گزرتا گیا اور آهستہ آهستہ اس میں بھی انحطاط شروع ہوگیا۔ اور آج یہ کس قدر افسوس ناک ناظرہ ہے کہ آج ان داعیان اسلام کی گدیاں محض دیا کے چند پیسے کمانے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں اوہر ایک گدی جس میں ہزاروں اور لاکھوں کی آمدنی ہے وہ چند لوگوں کے پیٹ بھرنے اور ان کے تعیش کے سامان پیدا کرنے کا ذریعہ نظر آتی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ان کو آستانوں کا نام دے کر مخلوق خدا کے لیے سجدہ گاہیں اور مرادیں مانگنے کے مراکز بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور اس طرح کئی طرح کی بدعات میں مبتلا ہو کر خود مسلمانوں کو چاہ ضلالت میں گرا رہی ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر اسلامی درس گاہیں ان جگہوں سے الگ کرنا پڑیں۔ چناچہ کچھ دیر اس طرح وقت چلتا رہا کہ یہ اسلامی درسگاہیں دعوت الی الاسلام کا کام کسی حد تک کرتی رہیں لیکن بد قسمتی سے آج وہ بھی دکانداریاں اور بڑی بڑی رقمیں کمانے کی منڈیاں نظر آتی ہیں اور جو کچھ ان میں ہو رہا ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ اسلام میں فرقہ بندی ، گروہ بندی اور پارٹی بازی پھر ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانا اور اس سے آگے بڑھ کر ایک دوسرے کو قتل کرنا اور ایک دوسرے کی عزت برباد کرنا یہ سب کچھ مع شے زائد دعوت الی الاسلام کے نام سے جاری وساری ہے اور اس طرح جو چیز اسلامی زندگی کی جان تھی وہی اسلامی زندگی کی موت بن کر رہ گئی۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ ۔ دعوت الی الاسلام دینے والوں کا فرض اولین کیا ہے ؟ : 202: اس زیر نظر آیت کے اندر ہی اس دعوت الی الاسلام دینے والوں کے فرائض منصبی کا بھی اعلان کردیا گیا فرمایا ان کا فرض منصبی یہ ہوگا کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں گے۔ معروف وہ کام ہیں جن کو فطرت انسانی پہچانتی ہے یعنی سارے نیک کام اور منکر وہ ہے جس سے فطرت انسانی انکار کرتی ہے یعنی سارے برے کام۔ بدترین حالت کسی قوم کی وہ ہوتی ہے جب وہ اپنے لوگوں کو برا کرتے دیکھیں اور اس سے ان کو نہ روکیں چناچہ یہودیوں کی برتدین حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے خود قرآن کریم میں یہ فرمایا گیا ہے کہ : کَانُوْا لَا یَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ 1ؕ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ 0079 (المائدہ 5 : 79) ” كه وہ برائیوں میں پڑجاتے ہیں تو پھر اس سے باز نہیں آتے البتہ یہ بڑی ہی برائی تھی جو وہ کیا کرتے تھے۔ “ ۔ پھر اگرچہ امر المعروف اور نہی عن المنکر ہر ایک مسلمان کے فرائض میں سے ہے مگر دعوت الی الاسلام کا کام کرنے والی جماعت کے فرائض میں سے اسے خصوصیت سے داخل فرمایا ہے۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ امربالمعروف اور نہی عنالمنکر افضل الجہاد ہیں اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا اللہ تعالیٰ کی زمین میں اس کا خلیفہ اور اس کے رسول کا خلیفہ ہے۔ اسلام کا یہ فخر تھا کہ اس میں چھوٹے سے چھوٹا انسان بڑے سے بڑے انسان کو بھی نصیحت کرسکتا تھا اور اس کی غلطی پر اسے سے دھڑک آگاہ کرسکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ جیسا کامل اور راست باز انسان جب خلافت کے منصب پر آتا ہے تو دو ٹوک الفاظ میں کہه دیتا ہے کہ ” اگر میں کج روی اختیارکروں وت مجھے سیدھا کردو “ حضرت عمر فاروق ؓ جیسے بارعب انسان کے سامنے ایک بڑھیا اس طرح کہه سکتی ہے کہ : ” اے ابن خطاب قرآن کریم جو کچھ ہم کو دیتا ہے آپ اس سے منع فرماتے ہیں۔ “ استفسار ہوتا ہے کہ وہ کیسے ؟ بڑھیا کہتی ہے کہ ” قرآن کریم عورتوں کے مہر کے متعلق فرمایا ہے کہ ” اگر تم نے عورتوں کو حق مہر میں ایک خزانہ بھی دے دیا ہو تو اس میں سے کھ واپس مت لو اور آپ کہتے ہیں کہ عورتوں کو بڑے بڑے مہر نہ دو ۔ “ تو حضرت عمر فاروق ؓ اپنی رائے سے رجوع کرتے ہیں لیکن آج مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ ہر حلقہ میں ایک پیر یا گدی نشین ہے اور اس کا حکم ان کے لیے اللہ کے حکم کے قائم مقام ہے۔ اس کو کوئی نہیں کہه سکتا کہ تم میں سے غلطی ہے یا یہ بات تم نے ٹھیک نہیں کہی یہ کام تم نے اچھا نہیں کیا گویا دعوت الی الاسلام کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ان کے درمیان سے اٹھ گئے۔ اس پر آج جتنا رونا رویا جائے اتنا ہی کم ہے۔ لیکن قرآن کریم کی ہدایت آج بھی یہی کہتی ہے کہ جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں یہی لوگ اصل میں کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔
Top