Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 13
قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا١ؕ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اُخْرٰى كَافِرَةٌ یَّرَوْنَهُمْ مِّثْلَیْهِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ
قَدْ : البتہ كَانَ : ہے لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيَةٌ : ایک نشانی فِيْ : میں فِئَتَيْنِ : دو گروہ الْتَقَتَا : وہ باہم مقابل ہوئے فِئَةٌ : ایک گروہ تُقَاتِلُ : لڑتا تھا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَ : اور اُخْرٰى : دوسرا كَافِرَةٌ : کافر يَّرَوْنَھُمْ : وہ انہیں دکھائی دیتے مِّثْلَيْهِمْ : ان کے دو چند رَاْيَ الْعَيْنِ : کھلی آنکھیں وَ : اور اللّٰهُ : اللہ يُؤَيِّدُ : تائید کرتا ہے بِنَصْرِهٖ : اپنی مدد مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَعِبْرَةً : ایک عبرت لِّاُولِي الْاَبْصَارِ : دیکھنے والوں کے لیے
تمہارے لیے ان دو گروہوں میں بڑی [ ہی نشانی تھی جو ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے اس وقت ایک گروہ تو اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا دوسرا منکرین حق کا گروہ تھا جنہیں مسلمان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ وہ ان سے دو چند ہیں اس کے باوجود منکرین حق کو شکست فاش ہوئی اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی نصرت سے مددگاری فرماتا ہے ، بلاشبہ ان لوگوں کیلئے جو چشم بینا رکھتے ہیں اس معاملہ میں بڑی ہی عبرت ہے
میدان بدر میں دونوں پارٹیوں کا آمنا سامنا : 32: رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے 8 ربیع الاول 13 نبوی بمطابق 2 ستمبر 622 کو قباء میں داخل ہوئے۔ اس جگہ آپ ﷺ نے چودہ روز قیام کیا اور ازیں بعد مدینہ منورہ تشریف لے ﴾گئے۔ قریش مکہ یہاں بھی امن سے بیٹھنے نہیں دینا چاہتے تھے۔ آئے دنوں شرارتوں پر شراتیں کرتے رہتے تھے۔ بار بار مدینہ پر حملہ آور ہوتے رہتے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے باقاعدہ جہاد فی سبیل اللہ کی اجازت دے دی۔ ادھر قریش مکہ نے عبداللہ بن ابی کو لکھ بھیجا کہ یا تو ” محمد “ کو قتل کردو یا ہم آکر ان کے ساتھ تمہارا بھی فیصلہ کردیتے ہیں۔ لڑائی کی سب سے بڑی ضروی چیز مصارف جنگ کا بندوبست تھا اس لیے مکہ کے لوگوں نے مل کر ایک تجارتی قافلہ شام کو روانہ کیا اور مکہ کی تمام آبادی میں جتنی رقم تھی سب کی سب اسی سامان تجارت میں لگا دی۔ قریش مکہ کا قافلہ شام سے روانہ ہوا ہی تھا کہ مکہ میں یہ خبر گرم ہوگئی کہ اس قافلہ کو لوٹنے کے لیے مدینہ میں تیاریاں ہورہی ہیں اور یہ خبریں گرم کرنے والے دراصل منافق تھے جو چاہتے تھے کہ جتنی جلدی ممکن ہو اس مٹھی بھر جماعت کا خاتمہ ہوجائے جن کو مسلمان کہا جاتا ہے۔ ادھر مدینہ میں یہ خبر پھیل گئی کہ مکہ والے پوری تیاری کر کے مدینہ پر حملہ آور ہو رہے ہیں اس لیے آپ ﷺ نے بھی اپنے دفاع کی تیاریاں شروع کردیں۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو جمع کیا اور واقعہ کی اطلاح دی مہاجرین پوری طرح جہاد کے لیے تیار تھے لیکن آپ ﷺ انصار کی طرف دیکھتے تھے۔ اسی اثناء میں سعد بن عبادہ ؓ جو سردار خزرج تھے اٹھے اور کہا کیا حضور ﷺ کا اشارہ ہماری طرف ہے ؟ خدا کی قسم آپ ﷺ فرمائیں تو ہم سب جان نثار کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں اور حضرت مقداد ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کا خدا جا کر لڑیں ہم لوگ آپ ﷺ کے داہنے ، بائیں ، آگے اور پیچھے ہر طرف سے لڑیں گے آپ ﷺ کا چہرہ دمک پڑا۔ غرض 12 رمضان المبارک 2 ھ کو آپ ﷺ تقریبا تین سو جاں نثاروں کے ساتھ شہر مدینہ سے نکلے تقریباً ایک میل دورنکل کر لوگوں کا جائزہ لیا جو کم عمر نکلے ان کو واپس کیا لیکن عمیر بن ابی وقاص ایک کم عمر صحابی تھے جب ان کو واپسی کے لیے کہا گیا تو وہ رو پڑے آخر کا نبی کریم ﷺ نے اجازت دے دی اور ان کے حقیقی بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ نے اپنے کم عمر مجاہد بھائی کے گلے میں تلوار لٹکائی۔ گنتی کی گئی تو 313 آدمی تعداد میں ہوئے جن میں سے ساتھ مہاجر اور باقی انصار تھے۔ ان میں سے بھی ابولبابہ بن عبدالمنذر کو مدینہ کا حاکم مقرر فرما کر واپس مدینہ جانے کا حکم فرمایا۔ آپ ﷺ اس قلیل لشکر کے ساتھ ساتھ چلتے رہے 17 رمضان المبارک کو بدر کے قریب پہنچے خبر رسانوں نے خبر دی کہ قریش وادی کے دوسرے سرے تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ خبر سن کر نبی ﷺ یہیں رک گئے اور فوج کو اتر پڑنے کا حکم دیا۔ قریش بڑے سازوسامان سے نکلے تھے۔ ہزار آدیم کی جمعیت تھی اور رؤسائے قریش سب کے سب ساتھ تھے سوائے ابولہب کے۔ رسد کا یہ حال تھا کہ ہر ایک سردار روزانہ دس اونٹ ذبح کیا کرتا تھا جو لوگوں میں پکار کر تقسیم کیا جاتا تھا۔ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے معزز رئیس تھا فوج کا سپہ سالار تھا۔ یہاں بدر کے میدان میں پہنچ کر قریش کو معلوم ہوگیا کہ ابو سفیان کا قافلہ بخیرت خطرہ کی زد سے نکل کر مکہ کی طرف نکل گیا ہے اور مسلمانوں نے ان کو چھیڑا تک نہیں تو قبیلہ زہرہ اور عدی کے سرداروں نے کہا اب لڑنا ضروری نہیں لیکن ابوجہل نہ مانا۔ زہرہ اور عدی کے لوگ واپس چلے گئے لیکن باقی فوج آگے بڑھی۔ قریش چونکہ پہلے پہنچ گئے تھے انہوں نے مناسب جگہ پر قبضہ کرلیا بخلاف اس کے مسلمانوں کی طرف چشمہ یا کنواں نہ تھا۔ زمین ایسی رتیلی تھی کہ پاؤں ریت میں دھنس جاتے تھے۔ حرت حباب بن منذر ؓ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ جو مقام منتخب کیا گیا ہے کیا وحی کی رو سے ہے ؟ یا فوجی تدبیر ہے ؟ ارشاد ہوا وحی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جگہ ہی کون سی ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی تائیدچون کہ ساتھی تھی اللہ تعالیٰ نے ایسی حالت میں منہ برسا دیا جس سے گرد جم گئی اور ریت سخت ہو گئی جس سے قدم جم گئے اور جابجا پانی کو روک کر چھوٹے چھوٹے حوض بنا لیے گئے تاکہ وضو اور غسل کے کام آئیں۔ اس قدر احسان کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ ” اور جب اللہ نے آسمان سے تم پر پانی برسایا تاکہ تم کو اس سے پاک و صاف کر دے۔ “ (الانفال 8 : 11) اس آیت میں بھی مخاطب اہل کتاب ہی ہیں کہ اہل کتاب اس نبی کریم ﷺ کی بشارات جو تم اپنی کتابوں میں پڑھ چکے ہو ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا مطالعہ کر کے دیکھو کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی پہلے ہی خبر دے دی کہ جنگ بدر میں کفار ناکام اور مسلمان کامیاب ہوں گے۔ پھر نتیجہ کیا رہا ؟ وہی جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کو کامیابی ہوگیا اور وہ بھی اتنے صاف الفاظ میں اور قریش مکہ کے سرداروں کے نام لے لے کر نشاندہی فرما دی کہ ابوجہل اس جگہ مرے گا اور عتبہ کی نعش اس جگہ تڑپے گی اور وہی ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے زیر نظر آیت میں فرمایا ہے کہ ” ان دونوں گروہوں میں جن کی آپس میں مڈبھیڑ ہوگئی تمہارے لیے ظاہر نشان تھا۔ “ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا کفر کی راہ میں : 33: دونوں فریق ہی ایک دوسرے کے ساتھ جنگ آزما تھے لیکن ایک فریق حق کی راہ میں جان دینے کی خاطر میدان میں نکلا تھا اور دوسرا کفر کو طاقتور کرنے کے لیے۔ پھر حق کی راہ میں لڑنے والے یعنی مسلمان دیکھ رہے تھے کہ کفار ہم سے دو چند یا اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں اور ان کے پاس ہر قسم کا سامان حرب بھی موجود ہے۔ ان کو معلوم تھا کہ ہم نہتے بھی ہیں اور تھوڑے بھی لیکن اس کے باوجود ان کی ہمتیں بلند تھیں اس لیے کہ وہ جس مقصد کے لیے جنگ آزما تھے وہ مقصد دنیوی زندگی سے بڑھ کر آخرت کی کامیابی کا مقصد تھا۔ جاں نثار صفیں باندھے گروہ مخالفین سے لڑ رہ تھے اور رسول اللہ ﷺ بارگاہ رب ذوالجلال سے دست بدعا تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ : ععععن ابن عباس ؓ ان النبٖى ﷺ قال وھو فی قبہ لہ یوم بدر انشدک عھدک ووعدک اللھم ان شئت لم تعبد بعد الیوم ابدا فاخذ ابوبکر بیدہ وقال حسبک یا رسول اللہ فقد الحت علی ربک وھو فی الدرع فخرج وھو یقول سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبْرَبَلَ السَّاعَةُ مَوْعِدُھُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْھٰى وَاَمَرُّ ۔ (صحیح بخاری) ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ بدر کے دن نبی کریم ﷺ ایک چھوٹے سے خیمے میں تھے اور بارگاہ ایزدی میں یوں دعا کر رہے تھے۔ میں تیرے عہد اور تیرے وعدہ کا واسطہ دیتا ہوں اے اللہ اگر تیری ایسی ہی مشیت ہے تو آج کے دن کے بعد زمین میں تیری پرستش نہیں کی جائے گی۔ ابوبکر صدیق ؓ نے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ اپنے رب پر الحا یعنی عاجزی وزاری کی۔ آپ ﷺ نے ذرہ پہنی ہوئی تھی پس آپ ﷺ اس خیمہ سے باہر نکلے اور زبان اقدس پر جاری تھا : سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُھُمْ وَالسَّاعَةُ اَرْھٰىَ وَاَمَرٌ (القمر 54 : 46) ” عنقریب یہ لوگ شکست خوردہ ہوں گے اور سب پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ چناچہ جنگ بدر میں وہ ہزیمت اٹھا کر سر پر پائوں رکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہیں پر ان کا معاملہ ختم نہیں ہو بلکہ ان سے نمٹنے کا اصل دن تو قیامت کا دن ہے جو بڑا سخت اور نہایت ہی تلخ ہے۔ غور کرو کہ نزول آیت کے وقت مسلمانوں کے بےبسی اور بےسروسامانی و زبوں حالی کو دیکھ کر کوئی بھی انسانی دماغی یہ پیش گوئی نہیں کرسکتا تھا کہ حکومت مکہ یا دولت یہود کسی سے بھی یہ ایسی زبردست ٹکر لے سکتے تھے۔ اس سے قرآن کریم کی پیش گوئی کا اعجاز رنگ ہر صورت میں عیاں ہے۔ کیونکہ گروہ مؤمنین تعداد میں قلیل اور سروسامان میں حقیر یعنی تعداد کے لحاظ سے کل 313 آدمی تھے اور وہ بھی بغیر سامان حرب کے۔ اونٹ اتنے تھے کہ چار پیادوں کے لیے ایک اونٹ سواری کے لیے نکلتا تھا اور گھوڑے کل دو تھے اور آهنی زرہیں سب لوگوں میں صرف سات تھیں اور تعداد کے لحاظ سے تیسرا حصہ تھے اللہ تعالیٰ کا یہ احسان کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کی آنکھوں میں صرف دو چند کر کے دکھایا تاکہ عام مسلمانوں کے حوصلے بھی بلند ہوں۔ ” وَاُخْرٰى کَافِرَةٌ“ یہ لشکر حکومت مکہ کا تھا۔ تعداد میں مسلمانوں سے سہ چند یعنی 950 آدمی اور قریش کی بہترین سواروں کی زیر قیادت اور ہر ضروری سامان سے آراستہ۔ ان میں تقریباً سات سو اونٹ تھے اور ان میں سے تقریباً ایک صد زرہ پوش بھی تھے۔ کیا کثرت تعداد ان کفار کے کام آئی؟ ہرگز نہیں بلکہ ان کے لیے ان کی جمعیت ہی شکست کا باعث ہوئی اور مٹھی بھر مسلمانوں کو وہ کامیابی نصیب ہوئی کہ ان کا نام رہتی دنیا تک روشن کردیا۔ میدان بدر کا نقشہ قرآن کریم کی نظر میں : 34: ” مسلمان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ منکرین حق ان کے دو چند ہیں “ اس کے باوجود منکرین حق کو شکست ہوئی۔ معاملہ اس طرح ہوا کہ تیرے رب نے سچائی کے ساتھ تجھے تیرے گھر سے باہر نکالا تھا اور یہ واقعہ ہے کہ مؤمنوں کا ایک گروہ اس بات سے ناخوش تھا۔ وہ تجھ سے امر حق میں جھگڑنے لگے باوجودیکہ معاملہ واضح ہوچکا تھا۔ وہ باہر نکل کر مقابل ہونے سے اس درجہ ناخوش تھے گویا انہی زبردست یموت کے منہ میں دھکیلا جارہا ہے اور وہ اپنی موت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اور مسلمانو ! جب ایسا ہوا تھا کہ اللہ نے تم سے وعدہ فرمایا تھا کہ دشمنوں کی دو جماعتوں میں سے کوئی ایک تمہارے ہاتھ ضرور آئے گی اور تمہارا حال یہ تھا کہ تم چاہتے تھے جس جماعت میں لڑائی کی طاقت نہیں یعنی قافلہ والی ہاتھ آجائے اور اللہ کا چاہنا دوسرا تھا۔ اللہ چاہتا تھا کہ اپنے وعدے کے ذریعہ حق کو ثابت کردے اور دشمنان حق کی جڑیں ہی کاٹ کر رکھ دے اور یہ اس لیے تاکہ حق کو حق کو دکھائے اور باطل کو باطل کر کے اگرچہ ظلم و فساد کے مرم ایسا ہونا پسند نہ کریں۔ یہ دن وہ دن تھا کہ تم ادھر قریب کے کنارے پر تھے اور دشمن ادھر دور کے کنارے پر تھا اور قافلہ تم سے نچلے حصہ میں یعنی سمندر کے کنارے نکل گیا اور اگر تم نے آپس میں لڑائی کی بات ٹھہرائی ہوتی تو ضرور اس جنگ سے لوگ گریز کرتے کیوں ؟ اس لیے کہ تمہیں دشمنوں کی کثرت سے اندیسہ تھا اور تم میں سے بہتوں کی نظریں تو قافلہ پر لگی ہوئی تھیں۔ لیکن اللہ نے دونوں لشکروں کو آپس میں بھڑا دیا تاکہ جو بات ہونے والی تھی اسے کرد کھائے نیز اس لیے بھی کہ جسے ہلاک ہونا تھا اتمام حجت کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہنے والا ہے اتمام حجت کے بعد زندہ رہے اور بلاشبہ اللہ سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔ اور اے پیغمبر اسلام ! یہ وہ دن تھا کہ اللہ نے تجھے خواب میں ان کی تعداد تھوڑی کر کے دکھا دی اور اگر انہیں بہت کر کے دکھاتا تو مسلمانو ! تم ضرور ہمت ہار دیتے اور اس معاملہ میں جھگڑنے لگتے۔ اللہ نے تمہیں اس صورت حال سے بچال لیا۔ یقین کرو جو کچھ انسان کے سینے میں چھپا ہوتا ہے وہ اس کے علم سے پوشیدہ نہیں اور پھر کیا ہوا کہ جب تم دونوں فریق ایکدسرے کے مقابلہ میں ہوئے تھے اور اللہ نے ایسا کیا تھا کہ دشمن تمہاری نظروں میں تھوڑے دکھائی دیتے اور ان کی نظروں میں تم تھوڑے دکھائی دیتے کیونکہ بظاہر تعداد میں وہی زیادہ تھے اور یہ اس لیے کیا کہ جو بات ہونے والی تھی اسے کر دکھائے اور سارے کاموں کا دارومدار اللہ ہی کی ذات پر ہے۔ مسلمانو ! جب حملہ آوروں کی کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تو لڑائی میں ثابت قدم رہو اور زیادہ سے زیادہ اللہ کو یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔ سورة الانفال کی ان آیات کریمات میں جنگ بدر کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا جا رہا ہے۔ فرمایا اللہ کی مخفی تدبیروں کی کرشمہ سازی دیکھو ادھر دشمنوں کا گروہ بڑھا چلا آتا تھا ادھر تم شہر سے نکل کر ایک قربی ناکے میں پہنچے تھے اور ابو سفیان کا قافلہ تھا کہ نشیب میں گر رہا تھا۔ تم اپنی کمزوری کی وجہ سے چاہتے تھے کہ اس سے مقابلہ ہو لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ قافلہ تو نکل گیا اور مقابلہ ہوا حملہ آوروں سے اور تمہاری مٹھی بھر کمزور جماعت نے اسے ہرا کر بھگا دیا اور اس ضمن میں اس خواب کا بھی ذکر فرما دیا جو جنگ بدر کے دنوں میں رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تھا اور جس میں دشمن ناکام اور مسلمان فتح مند دکھائے گئے تھے یہ خواب مسلمانوں کے لیے مزید تقویت کا باعث ہوا تھا۔ اہل کتاب کے ان لوگوں کو مخاطب کیا جاتا ہے جو صاحب دانش ہیں : 35: آیت کے آخری حصہ میں بھی اہل کتاب کو بتایا جارہا ہے کہ اگر تم عقل سلیم اور بینا آنکھ رکھتے ہو تو دیکھو اور سمجھنے کی کوشش کرو کہ اس مٹھی بھر گروہ مسلم کی کامیابی کا راز کیا ہے ؟ کیا یہی بات نہیں کہ جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو سچے دل سے اللہ کا رسول تسلیم کیا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کی اس پیشگوئی پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہیں اور ایمان کی طاقت ہی وہ طاقت ہے جو سب طاقتوں سے بازی لے جانے والی ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی نصائح ہی وہ نصائح ہیں جن کو بطور نصیحت قبول کرلینے سے کامیابی و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔ قرآن کریم رسول اللہ ﷺ کی زبان اقدس سے چھ باتوں پر زور دے رہا ہے اور کہتا ہے کہ فتح و کامرانی کا اصل سرچشمہ یہی ہے۔ چناچہ وہ کہتا ہے کہ : 1 ثابت قدم رہوکیون کہ میدان جنگ کی ساری کامیابی اسی کے لیے ہوتی ہے جو آخر تک ثابت قدم رہے۔ 2 بہت زیادہ اللہ کو یاد کرو کیونکہ جسم کا ثبات دل کے ثبات پر موقوف ہے اور دل اس کا مضبوط رہے گا جو اللہ پر کامل ایمان رکھتا ہے۔ 3 اللہ او اس کے رسول کی اطاعت کرو اور رسول اللہ کے بعد اپنے امام و سردار کی کیونکہ بغیر اطاعت یعنی ڈسپلن کے کوئی جماعت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ 4 باہمی نزاع سے بچو ، ورنہ سست پڑ جائو گے اور بات بگڑ جائے گی اور تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ 5 کتنی ہی مشکلیں پیش آئیں جھیلتے رہو۔ بالآخر جیت اسی کی ہے جو زیادہ جھیلنے والا ہوگا۔ 6 کافروں کا ساچلن اختیار نہ کرو جو ایمان و راستی کی جگہ گھمنڈ اور دکھاوے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ تمہارے کاموں کی بنا پر خدا پرستانہ عجزو اخلاص پر ہونی چائے۔ یہی وہ اصول ہیں جن میں اسلام کی کامیابی کا اب بھی راز ہے۔ ان پر غور کر کے مسلمان قوم کو انہی سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور آج بھی یہ کلید کامیابی ہے اور اہل بصیرت وہی ہیں جو ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
Top