Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 155
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ١ۙ اِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا١ۚ وَ لَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ تَوَلَّوْا : پیٹھ پھیریں گے مِنْكُمْ : تم میں سے يَوْمَ : دن الْتَقَى الْجَمْعٰنِ : آمنے سامنے ہوئیں دو جماعتیں اِنَّمَا : درحقیقت اسْتَزَلَّھُمُ : ان کو پھسلا دیا الشَّيْطٰنُ : شیطان بِبَعْضِ : بعض کی وجہ سے مَا كَسَبُوْا : جو انہوں نے کمایا (اعمال) وَلَقَدْ عَفَا : اور البتہ معاف کردیا اللّٰهُ : اللہ عَنْھُمْ : ان سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : حلم ولا
جن لوگوں نے اس دن لڑائی سے منہ موڑ لیا تھا جس دن دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے تو شیطان نے ان کے قدم ڈگمگا دیئے تھے اور اللہ نے ان کی یہ لغزش معاف کردی تھی وہ یقینا بخش دینے والا بہت ہی بردبار ہے
جن لوگوں سے لغزش ہوئی تھی ان کی معاف کا اعلان الٰہی : 287 : ” زلۃ “ دراصل بلاقصد و ارادہ پاؤں کے پھسل جانے پر بولا جاتا ہے گویا لفظ کے اندر ہی یہ بات واضح کردی کہ احد کے روز جو میدان کارزار سے بھاگنے کی صورت پیش آئی تھی تو اس میں ان لوگوں کا مقصد و ارادہ بھاگ نکلنے کا نہ تھا بلکہ کچھ حالات اس طرح کے پیدا ہوگئے تھے کہ وہ بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ منافقین کا گروہ پہلے ہی الگ ہوچکا تھا اس لیے کہ وہ شریک جنگ نہ ہوئے تھے۔ یہ خالص مسلمان تھے تاہم ان سے یہ کمزوری ظاہر ہوگئی اور اس کی تفصیل پیچھے گزر چکی کہ جب تیراندازوں کے جگہ چھوڑ دینے کی وجہ سے کفار کا ہزیمت خوردہ لشکر لوٹا اور پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا تو مسلمانوں کی فوج بوجہ تعاقب کے پراگندہ حالت میں ہوگئی اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا ؟ اس لیے وہ اپنی جمعیت قائم نہ رکھ سکے۔ اس حالت میں نبی کریم ﷺ نے آواز دے کر لوگوں کو اکٹھا کرنا چاہا مگر ایسی حالت میں سارے لشکر کا جمع ہونا محال تھا۔ بعض لوگ لشکر اسلام سے بالکل الگ ہوگئے تھے اور ان کے لیے اصل جمعیت کے ساتھ ملنا مشکل ہوگیا اگرچہ ان کے دلوں میں کسی قسم کا کوئی روگ نہ تھا اس لیے لغزش کا سرزد ہونا شاطلن کی طرف سے منسوب کیا گیا۔ کتنے آدمی بھاگے تھے اور وہ کون کون تھے ؟ اس میں لوگوں نے بہت لے دی کی ہے لیکن حقیقت میں اس طرح کی بحث کرنا اور گزشتہ واقعات سے کیڑے نکالنا ایک سچے اور پکے مسلمان کا کام نہیں ہو سکتا بلکہ ایسی بحثیں وہی اٹھاتے ہیں جن کے اپنے دلوں میں کسی نہ کسی طرح کا کوئی روگ موجود ہوتا ہے اور وہ اسلام سے مخلص نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان سب کی لغزش کو معاف کردیا اور کسی ایک کو بھی اس میں سے مستثنیٰ نہیں کیا تو ایرے غیرے کو کیا حق ہے کہ وہ اس طرح کی چھان بین شروع کر دے اور اپنے پاس سے ہی جس کو چاہے اس فعل میں ملوث کر دے اور جس کو چاہے بری کر دے۔ ایسے سارے واقعات عبرت حاصل کرنے کے لیے بیان کیے جاتے ہیں۔ ذہنی عیاشی کے لیے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس لغزش و خطا کے بعد کیا معاملہ کیا ؟ اس کی وضاحت خود فرما دی کہ اول ظاہری انعام اونگھ کا بھیج کر ان کی ظاہری تکان ، تکلیف اور پریشانی دور فرمائی پھر فرمایا کہ جو مصیبت اور غم مسلمانوں کو اس وقت پہنچا وہ نری سزا و عقوبت نہ تھی بلکہ اس میں ؟ کچھ مربیانہ حکمتیں بھی پوشیدہ تھیں اور آخر میں صاف صاف لفظوں میں ان کی اس لغزش کی معافی کا اعلان فرما دیا ” تم میں سے وہ لوگ جنہوں نے اس دن پیٹھ پھیر دی جس دن دو گروہ میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوئے تھے۔ شیطان ہی نے ان کو پھسلانا چاہا جس کا اصلی سبب بعض کا فعل تھا جو انہوں نے کمایا پھر یقینا اللہ نے ان کو معاف کردیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا بردبار ہے۔ “ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کا یا یوں کہو کہ اہل اسلام کا متفقہ مسئلہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ اگرچہ معصوم عن الخطا نہیں تھے اس لیے کہ معصوم صرف اور صرف انبیاء کرام ہی کی جماعت تھی تاہم جو بھی اور جب بھی ان سے کوئی خطا یا لغزش سرزد ہوئی اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف فرمایا اور پھر صرف معاف ہی نہیں فرمایا بلکہ ان کے ساتھ لطف و کرم کا خاص معاملہ فرمایا اور ان سب کو ” ؓ و رضوعنہ “ کا مقام عطا فرمایا تو پھر کسی کو کیا حق کہ ان میں سے کسی کا برائی کے ساتھ تذکرہ کرے ؟ بلکہ ایسا کام سرانجام دینے والے دراصل شیشہ میں اپنا منہ دیکھتے ہیں اور برے کو ہمیشہ برا ہی چہرہ نظر آتا ہے۔ اور وہ یہ فراموش کردیتا ہے کہ یہ چہرہ خود اس کا اپنا ہے۔ اس لیے ایسے ہی کئی بروں کو ان میں سے برا چہرہ نظر آ رہا ہے۔ عثمان بن مواہب سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ایک شخص نے بیت اللہ کا حج کیا اور اس نے دیکھا ایک جگہ لوگ جمع ہیں اس نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ اس کو بتایا گیا کہ یہ قریش ہیں اس نے پر پوچھا کہ یہ بوڑھا شخص ان میں کون ہے ؟ اسے بتایا گیا کہ یہ ابن عمر ؓ ہیں وہ شخص ابن عمر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے کچھ سوال پوچھنا چاہتا ہوں اور پھر اس طرح بولا کہ میں تم کو اس گھر کی حرمت کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے ضرور جواب دینا پھر اس نے سوال کیا کیا تم جانتے ہو کہ عمان بن عفان احد کے روز بھاگ گئے تھے ؟ اس نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ بدر کے دن بھی وہ غائب تھے اور اس میں شریک نہ تھے ؟ اور پھر اس نے کہا کہ تم کو معلوم ہے کہ بیعت رضوان میں بھی وہ موجود نہ تھے ؟ اس کے جواب میں ابن عمر ؓ نے جواب دیا اور فرمایا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ جنگ احد سے فرار ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا اور پھر یہی زیر نظر آیت تلاوت فرمائی اور بدر سے عثمان ذوالنورین ؓ کی غیر حاضری کی وجہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی سیدہ رقیہ ؓ کی بیماری تھی جو سیدنا عثمان ؓ کی زوجیت میں تھیں اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ شرکاء بدر کے برابر تم کو اجر وثواب بھی ملے گا اور حصہ بھی اور تم یہاں مدینہ میں اپنی زوجہ محترمہ کی تیمارداری کے لیے ٹھہر جاؤ ۔ رہا بیعت رضوان سے غیر حاضری کا معاملہ تو وہ تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ بیعت رضوان کیوں ہوئیَ اس کا سبب ہی یہ تھا کہ وادیٔ مکہ کے اندر حضرت عثمان غنی ؓ سے زیادہ کوئی معزز شخص ہوتا تو قریش مکہ کے پاس رسول اللہ ﷺ اس کو قریش مکہ کے پاس بھیجتے چونکہ عثمان ؓ ہی سب سے زیادہ عزت والے تھے اس لیے نبی کریم ﷺ نے آپ کو مکہ بھیجا تھا اور ان کے متعلق یہ خبر اڑا دی گئی کہ عثمان ؓ شہید کردیے گئے اس لیے تو بیعت رضوان ہوئی تھی پس نبی کریم ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے پھر اس کو اپنے دوسرے ہاتھ پر خود ہی مارا اور فرمایا یہ عثمان کی بیعت ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ تفصیل بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اے نکتہ چینی کرنے والے ان باتوں کا یہ جواب بھی اپنے ساتھ لے جا۔ (بخاری بحوالہ مظہری)
Top